ملک سے سرمایہ کار بھاگنے کا خدشہ، پاکستان نے آئی ایم ایف سے شرائط میں نرمی کیلیے رابطہ کرلیا

ویب ڈیسک
|
12 May 2025
اسلام آباد: پاکستانی حکومت نے بڑی صنعتوں پر عائد 10 فیصد سپر ٹیکس میں کمی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس سلسلے میں اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
واضح رہے کہ سپر ٹیکس کے خلاف 200 ارب روپے کے مقدمات** مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں جبکہ موجودہ ٹیکس نظام کے تحت بڑی صنعتوں پر 39 فیصد مجموعی ٹیکس بوجھ (بشمول 10 فیصد سپر ٹیکس) عائد ہے۔
حکومت کا خدشہ ہے کہ اگر ٹیکس میں کمی نہ ہوئی تو سرمایہ کار دبئی سمیت دیگر ممالک منتقل ہو سکتے ہیں، ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 8.8 فیصد سے بڑھ کر 10.4 فیصد ہو چکا ہے، جون تک 10.6 فیصد ہونے کا امکان ہے۔
2022 میں حکومت نے عام شہریوں کو ٹیکس کے بوجھ سے بچانے کے لیے سیمنٹ، اسٹیل، شوگر، آئل اینڈ گیس اور ایل این جی ٹرمینلز جیسی بڑی صنعتوں پر اضافی ٹیکس عائد کیا تھا۔ تاہم، اب صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکس سرمایہ کاری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے، اس لیے ٹیکس پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی کرنے کے لیے فنڈ سے منظوری لینا ضروری ہے۔ حکومت کا ہدف اگلے مالی سال تک ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 11 فیصد تک لے جانا ہے، لیکن صنعتوں کے دباؤ کے بعد سپر ٹیکس میں نرمی پر غور کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، اگر ٹیکس کا بوجھ کم نہ ہوا تو ملک سے سرمایہ کاری کے نکلنے کا خطرہ بڑھ جائے گا، جس سے معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
صنعت کاروں کا موقف ہے کہ موجودہ ٹیکس شرح کاروباری سرگرمیوں کو دباتی ہے اور بیرونِ ملک سرمایہ کاری کو زیادہ پرکشش بناتی ہے۔
حکومت فی الحال آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی تیاری کر رہی ہے اور امید ہے کہ جلد اس معاملے پر کوئی مثبت پیشرفت ہوگی۔
Comments
0 comment