عمران خان کی جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر تنقید، مذاکرات کی افواہوں کو مسترد کر دیا

ویب ڈیسک
|
22 May 2025
سابق وزیراعظم عمران خان نے آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کے بعد آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی پر تنقید کی اور واضح کیا ہے کہ وہ مذاکرات نہیں کررہے۔
انہوں نے اپنے سرکاری ایکس اکاؤنٹ پر اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنے والے خاندان کے ارکان، پارٹی رہنماؤں اور صحافیوں سے ہونے والی گفتگو کے تفصیلی نکات شیئر کیے۔
زیر گردش مذاکرات کی افواہوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے کسی قسم کی خفیہ مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ "میرے ساتھ کسی قسم کے ڈیل کی افواہیں جھوٹ ہیں۔ نہ کوئی ڈیل ہوئی ہے، نہ ہی کوئی بات چیت جاری ہے۔"
انہوں نے شمالی وزیرستان کے میرعلی تحصیل میں ہونے والے ڈرون حملے کی بھی سخت مذمت کی، جس میں چار معصوم بچے ہلاک ہوئے، اور اسے تشدد کا ایک المناک اور ناقابل قبول عمل قرار دیا۔
عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ واقعی ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں تو ٹھوس مذاکرات کریں۔
انہوں نے کہا کہ "اگر آپ کو پاکستان کی فکر ہے تو آگے آ کر بات کریں۔ بیرونی خطرات، بڑھتا دہشت گردی اور معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ملک کو متحد ہونا چاہیے،"
انہوں نے ملک میں موجودہ انصاف کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ"آج پاکستان میں قانون صرف کمزور پر لاگو ہوتا ہے، طاقتور پر نہیں۔ یہ نظام کا سب سے بڑا نقص ہے۔"
عمران خان نے کہا کہ "جب عوام کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ جتنا بڑا چور ہوگا، اتنا بڑا عہدہ ملے گا، تو انصاف پہلے ہی مر چکا ہے''
خان نے الزام لگایا کہ آصف زرداری کی بہن کے خلاف نیب کے پاس ایک کیس ہے جس میں ملازمین کے نام پر رجسٹرڈ پانچ اپارٹمنٹس شامل ہیں۔"وہ بیرون ملک ہے، اور کوئی اس سے سوال نہیں کر رہا،"۔
انہوں نے شہباز شریف کے خلاف 22 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ اس کے باوجود انہیں وزیراعظم بنا دیا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ "پچھلے تین سالوں میں پاکستان کے اخلاقی اقدار اور آئینی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے''۔
انہوں نے توشہ خانہ ٹو کیس کے مقدمے کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے شکایت کی کہ انہیں اپنے خاندان اور بہن بھائیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں ان کی کتابیں فراہم نہیں کی گئیں، ان کے ڈاکٹر سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، اور وہ مہینوں سے اپنے بیٹوں سے بات نہیں کر پائے، جو کہ عدالت کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
Comments
0 comment