سارا انعام قتل کیس، عدالت کا شاہ نواز امیر کو موت تک پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کا حکم

سارا انعام قتل کیس، عدالت کا شاہ نواز امیر کو موت تک پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کا حکم

عدالت نے محفوظ فیصلہ جاری کردیا
سارا انعام قتل کیس، عدالت کا شاہ نواز امیر کو موت تک پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کا حکم

Webdesk

|

14 Dec 2023

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ عدالت نے سارا انعام قتل کیس میں شاہنواز امیر کو سزائے موت سنا دی جبکہ مجرم کی والدہ ثمینہ کو شک کی بنیاد پر بری کردیا۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے آج جاری کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سارا انعام قتل میں شاہ نواز امیر کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا معطلی کی درخواست کو مسترد کر کے سزائے موت کا حکم برقرار رکھا ہے۔

 تحریری فیصلہ

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارا انعام قتل کیس کا 75 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا، جسے سیشن جج ناصر جاوید راجہ نے تحریر کیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ ملزم شاہنواز امیر کیخلاف مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے، شاہنواز امیر نے جان بوجھ کر سارہ انعام کا بے رحمانہ قتل کیا جس کی بنیاد پر عدالت شاہنواز امیر کو مجرم قرار دیتی ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شاہنواز امیر نے سارہ انعام کو سر پر وزنی ڈمبل کی بار بار بے رحم ضربات لگا کر قتل کیا، مجرم شاہنواز امیر نے ظالمانہ اور بے رحمانہ قتل کا ارتکاب کیا جس پر مجرم کسی بھی قسم طرح کے رحم کا مستحق نہیں ہے۔

عدالت نے لکھا کہ شاہنواز امیر کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 بی کے تحت سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے، مجرم شاہنواز امیر کو مرنے تک پھانسی کے پھندے سے لٹکایا جائے۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم شاہنواز امیر پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ سارہ انعام کے لواحقین کو ادا کرے، مجرم شاہنواز امیر جرمانہ ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس سے زمین کے واجبات کی مد میں جرمانہ وصول کیا جائے۔

سیشن جج نے کہا کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں شاہنواز امیر کو چھ ماہ کی قید مزید بھگتنا ہوگی، پولیس کی جانب سے مال مقدمہ کی مد میں تحویل میں لیے گئے سارا انعام کے خون آلودہ کپڑے اور دیگر چیزیں سارا انعام کے والد کو کوٹا دی جائیں۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ شاہنواز امیر کے ساتھ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیاگیا تھا، انہیں بعد میں قتل میں معاونت کے مقدمے میں نامزد کیا گیا، ثمینہ شاہ پر قتل میں معاونت کے الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ وقوعہ کے وقت ثمینہ شاہ فارم ہاؤس پر موجود تھیں مگر ان کی قتل میں معاونت کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، تفتیش اور ٹرائل کے دوران بھی ثمینہ شاہ کے خلاف کوئی مجرمانہ مواد ریکارڈ پر نہیں لایا گیا اور واقعے کے فوراً بعد ثمینہ شاہ نے خود پولیس کو فون کر کے سارا انعام کے قتل کے حوالے سے آگاہ کیا۔

جج نے لکھا کہ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کو شک کا فائدہ دے کر مقدمے سے بری کیا جارہا ہے۔

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!