فیض آباد دھرنے کی ذمہ دار شہباز حکومت قرار، فیض حمید اور پیسے بانٹنے والے افسر کو کلین چٹ

فیض آباد دھرنے کی ذمہ دار شہباز حکومت قرار، فیض حمید اور پیسے بانٹنے والے افسر کو کلین چٹ

فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے اگئی، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے معاہدے کی توثیق کی
فیض آباد دھرنے کی ذمہ دار شہباز حکومت قرار، فیض حمید اور پیسے بانٹنے والے افسر کو کلین چٹ

ویب ڈیسک

|

16 Apr 2024

راولپنڈی کے علاقے فیض آباد میں 2017 کو ہونے دھرنے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن نے سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید، پیسے تقسیم کرنے والے ڈی جی رینجرز کو کلین چٹ دے دی جبکہ شہباز حکومت کو اس کا قصور وار قرار دیا ہے۔

 سابق اہم افسر نے احتجاجی رہنماؤں کے ساتھ چھ نکاتی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے نتیجے میں سابق وزیر قانون زاہد حامد مستعفی ہوگئے تھے۔

 کمیشن نے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل نوید اظہر حیات کو بھی الزامات سے بری کر دیا ہے جنہوں نے دھرنے کے شرکاء میں رقم تقسیم کی تھی۔ انکوائری پر اپنے جواب میں حیات نے کہا کہ یہ رقم مظاہرین کی گھر واپسی میں مدد کے لیے تقسیم کی گئی۔

 انکوائری رپورٹ میں ان اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے جو پولیس اور انٹیلی جنس بیورو کی صلاحیتوں کو مضبوط بناتے ہوئے سویلین معاملات میں فوج کی شمولیت کو کم کریں گی۔

 کمیشن کے سربراہ سابق آئی جی خیبرپختونخوا سید اختر علی شاہ تھے اور آئی جی طاہر عالم اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سینئر افسر خوشحال خان کمیشن کے ممبر تھے۔

 ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی اجازت پر ٹی ایل پی کے مظاہرین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔

 سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی ان کے دستخط کی توثیق کی۔ پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کے علاوہ کسی اور شخص نے فیض حمید کے خلاف گواہی نہیں دی۔

 تاہم، کمیشن کی رپورٹ میں اسلام آباد میں دھرنے کو افراتفری اور تشدد میں اضافے کی اجازت دینے کی ذمہ داری اس وقت کی پنجاب حکومت پر ڈالی گئی، جس کی قیادت شہباز شریف کر رہی تھی۔ تاہم رپورٹ میں واضح طور پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا۔

 کمیشن نے سابق انسپکٹر جنرل پنجاب عارف نواز کے خلاف کمیشن کے سامنے گواہی کے دوران غلط معلومات فراہم کرنے اور بدانتظامی میں ملوث ہونے پر کارروائی کی سفارش کی ہے۔

 چونکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ٹی ایل پی کے مظاہرے سے منسلک کرنے والے کوئی ثبوت تحقیقات میں شامل افراد کی طرف سے فراہم نہیں کیے جا سکے، اس لیے رپورٹ سرکاری اہلکاروں کے براہ راست ملوث ہونے کا تعین کرنے میں ناکام رہی۔

 اگرچہ کمیشن کو ذمہ دار فریقوں کی نشاندہی کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن اس نے پنجاب اور مرکزی حکومتوں کی طرف سے پیش کردہ 243 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔

 ٹی ایل پی کے مظاہرین کے خلاف مقدمات چلانے کی تجویز بھی دی گئی۔

 25 نومبر 2017 کو وفاقی حکومت کے ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کو کمیشن نے ماضی کی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک نامناسب طریقہ کار کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

 کمیشن نے پیمرا کونسل آف کمپلینٹس میں اصلاحات اور انتہا پسندی کو روکنے کے لیے براڈکاسٹ میڈیا پر اشتعال انگیز مواد کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کی تجویز بھی دی۔ مزید برآں، اس نے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد پر زور دیا ہے۔

 

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!