ماں دیکھ میں ڈگمگائی نہیں، بانو کا برزخ سے خط

عمیر دبیر
|
28 Jul 2025
ماں، بابا میں یہاں برزخ میں پہنچ چکی ہوں اور اب احسان کے ساتھ گھومنے پھرنے یا ساتھ چلنے پر کوئی خوف بھی نہیں ہے۔
ماں یاد ہے تم نے اور بابا نے مجھے بچپن سے ایک ہی بات سکھائی تھی کہ جتنا ہی کڑے سے کڑا وقت آجائے اور تو صبر کرنا، ثانت قدم رہنا اور ڈگمگانا نہیں
یہ بات جب میں نے احمد نے یہاں آنے کے بعد بتائی تو وہ بھی حیران تھا ورنہ تو وہ بھی مجھے ایک کانچ کی لڑکی سمجھتا تھا جو جذبات سے بھری ہوتی ہے اور اپنی کسی بھی خواہش پر ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوجاتی ہے۔
اماں، تجھ سے بس ایک شکوہ ہے، تو میری سب سے اچھی دوست تھی، میں بڑی ہوئی تو سب سے پہلے تجھے جوانی کی دہلیز پر داخل ہونے کی خوش خبری سنائی، یاد ہے نا تو نے کیسے گوندتا آٹا چھوڑ کر مجھے گلے سے لگا لیا تھا اور مجھے تاکید کی تھی کہ اب تو بڑی ہورہی ہے دوپٹہ اڑنے، اٹھنے بیٹھنے کا خاص خیال رکھنا ہے۔
میں نے تو سب کچھ ہی کیا ماں، ہمیشہ تیری باتوں پر عمل کیا اور بابا کی عزت پر کوئی ناموس نہیں آنے دی مگر ماں میں بھی تو لڑکی ہوں جس کی خواہشات تھیں
میں بھی اڑنا چاہتی تھی، خود کو منوانا اور آپ کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی مگر یہ سب نہ ہوا اور آپ نے مجھے گھر سے وداع کیا، پھر پہلے ہی سال میں لڑکی سے ماں بنی تو ساری چیزیں، خواہشات ختم ہوگئیں۔
ماں، تو میری کیسی اچھی دوست تھی؟ تجھے معلوم ہی نہیں چلا کہ کیسے چند برسوں میں تیری بیٹی صرف زندہ لاش بن کر رہ گئی ہے، اس کے ساتھ جو رویہ میرے ساتھ رکھا گیا وہ تو ایک باہر والی عورت سے زیادہ بہتر تھا پھر میرا باہر سے موازنہ کیا جاتا اور انجوائے نہ کروانے کے طعنے۔
ماں تو سچ بتا کیا تیرے ساتھ یہ سب ہوا تھا؟ نہیں نا۔ ۔ کیونکہ میں اپنے بابا کو جانتی ہوں وہ تیری عزت کرتے تھے مگر ماں اب تو بھی دیکھ ٹوٹ گئی نا، قرآن اٹھا کر میرے خلاف گواہی دے دی۔
مجھے پتہ ہے تو نے سب مجبوری میں کیا ہے ورنہ تیرے ساتھ بھی سردار باکھان والا سلوک کرتا مگر میں تجھ سے ناراض نہیں کو ئی شکایت بھی نہیں بس شکوہ تھا کہ تو میری سب سے اچھی دوست تھی اور دکھ، کرب کو پہچان نہ سکی۔
بھیا کو میرا شکریہ کہنا جیسے اُس نے بچپن سے میری ہر بات مانی اُس روز ڈیگاری کے میدان میں بھی خود کو بھائی منوایا اور میرے آخری الفاظ کا مان رکھتے ہوئے صرف 7 گولیاں ماریں اور لاش کی بے حرمتی نہیں کی۔
ماں، تجھے پتہ ہے جب مقتل گاہ کی طرف میرے قدم بڑھ رہے تھے تو میرے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور بس یہی دعا کررہی تھی کہ مجھے ثابت قدم رکھنا، میرے قدم ڈگمگائیں نہیں تاکہ میرے ماں باپ کا دی ہوئی نصیحت کا مان رہ سکے۔
تجھے جب یہ خط ملے اور حالات معمول کے مطابق ہوجائیں تو کسی روز رات ساتھ کھانے کانے کے بعد آغا جان (ابا)، بھیا اور خود سے پوچھنا کہ میں کیسی بیٹی تھی اور کیا یہ سب ہونا چاہیے تھا؟
میں یہاں بیٹھ کر تیرے ، ابا اور بھیا کیلیے دعا کرتی ہوں کہ اللہ مشکلات کو آسان کرے، کیونکہ میں یہاں احمد کے ساتھ بہت خوش ہوں اور مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ ہم دونوں کی ارواح آسمان کی طرف ہاتھ پکڑ کر گئیں اور ہم ایسے ہی خوشی خوشی برزخ میں داخل ہوئے۔
آج یہاں کوئی غم، دکھ اور پریشانی نہیں، مگر ماں مجھے تیرا سُن کر بہت پریشانی ہے اور آغا کا بھی بہت خیال آتا ہے، لیکن پھر مسکراتی ہوں کہ جس ماں اور باپ کے کہنے پر میرے قدم نہ ڈگمگائے تو معمولی امتحان میں وہ بھی تو ثابت قدم ہوں گے۔
آخر میں، مجھے میری ایک آخری چیز جسے آپ لوگ غلطی کہتے ہو اُس پر معاف کردینا اور یقین کرو کہ میرے دل میں آپ لوگوں کیلیے کوئی شکوہ نہیں، کیونکہ بیٹی اور بہن ہوں نا تو چاہیے دنیا ہو یا پھر یہاں، معاف ہی کروں گی۔
ماں اب اگر میرے لیے کچھ کرنا ہے تو بس دعا کرنا اور پھر میں تیرے خواب میں آیا کروں گی، تجھ سے ڈھیر ساری باتیں کروں گی، یہاں کی باتیں بتاؤں گی، آخر کو تو ہی تو میری سب سے اچھی دوست ہے۔
تمھاری اپنی بانو
---------
یہ تحریر افسانوی ہے
Comments
0 comment