ایردوان مخالف مظاہرے میں پکاچو بھی شریک

ویب ڈیسک
|
28 Mar 2025
استنبول کے میئر اکرام امام اوغلی کی گرفتاری کے خلاف ترکی میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک انوکھا منظر سامنے آیا، جہاں ایک مظاہرہ کرنے والا "پکاچو" کے ائیر فلیٹ کوسٹیوم میں ایک شخص مظاہرین کے ساتھ بھاگتا ہوا نظر آیا۔
صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں، جن کا سبب ان کے سیاسی حریف امام اوغلی پر بدعنوانی اور دہشت گردی کے الزامات میں گرفتاری ہے۔
انٹالیہ میں سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، جہاں سیکیورٹی فورسز نے انہیں منتشر کرنے کے لیے کارروائی کی۔ جب مظاہرین بھاگنے لگے، تو پکاچو بھی تیزی سے راہ فرار اختیار کرتا نظر آیا۔
انٹالیہ کی اکدنیز یونیورسٹی کے ایک فوٹو جرنلسٹ نے اس دلچسپ لمحے کو کیمرے میں قید کیا۔ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر AI جنریٹڈ تصاویر بھی گردش کرنے لگیں، جن میں پکاچو کو مظاہروں میں دکھایا گیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ایردوان 2028 کے انتخابات سے پہلے امام اوغلی کو سیاسی میدان سے ہٹانا چاہتے ہیں اور عدلیہ کو مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ امام اوغلی کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں اور یہ سیاسی انتقام ہیں۔ ان کے وکیل مہمت پہلوان کو بھی جمعرات کو گرفتار کر لیا گیا، جنہوں نے ایردوان پر جمہوریت کے خلاف "قانونی کودتا" کرنے کا الزام لگایا۔
استنبول، انقرہ اور انٹالیہ میں لگاتار آٹھویں دن جاری مظاہروں کے دوران ترکی کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے بتایا کہ تقریباً 1,900 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اعداد و شمار:
1,879 مشتبہ افراد گرفتار، جن میں سے 260 کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
468 کو عدالتی کنٹرول کے تحت رہا کر دیا گیا۔
662 کے خلاف مقدمات جاری ہیں۔
حکام نے مظاہرین، خاص طور پر بائیں بازو کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے گھروں میں چھاپے بھی مارے ہیں۔ اس کے علاوہ، 11 صحافیوں کو مظاہروں کی کوریج کرنے پر حراست میں لے لیا گیا۔ اپوزیشن حمایت یافتہ میڈیا چینلز پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں، جبکہ BBC کے رپورٹر مارک لوین کو "عوامی امن خراب کرنے" کے الزام میں گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔
ترکی کے وزیر انصاف کے مطابق، امام اوغلی سے منسلک بلدیاتی عہدیداروں اور کاروباری شخصیات کو رشوت، بھتہ خوری اور ٹھیکے میں دھاندلی کے الزامات میں مزید 106 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں جمہوریت کے خلاف ہیں، جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون کے مطابق اقدامات ہیں۔
Comments
0 comment