نوجوان نسل میں مرگی کے مرض کا بڑھنا باعث تشویش ہے، ماہرین
Webdesk
|
19 May 2024
کراچی: ایپی لیپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر، معروف نیورولوجسٹ اور مرگی کے مرض کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ نوجوانوں میں مرگی کے مرض کا بڑھنا تشویشناک ہے۔
آج مرگی کے کیمپ میں آنے والے 60 فیصد سے زیادہ مریضوں کی عمریں 20 سال سے کم تھی۔ مرگی ایک ذہنی مگر قابل علاج مرض ہے۔پاکستان میں اس بیماری کا تناسب 2.5 فیصد ہے۔
جس کا مطلب ہوا اس وقت ملک میں مرگی کے تقریباََ 25لاکھ مریض موجود ہیں۔ پاکستانی کی آبادی کے تناسب سے صحت کا بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
وہ ایپی لیپسی فائونڈیشن پاکستان کے تحت گلشن اقبال میں اے جی ایم فارما کے تعاون سے منعقدہ ''مرگی کے مفت طبی معائنہ کیمپ'' میں میڈیا سے گفتگو کرر ہی تھیں۔
اس موقع پر مستحق مریضوں کو مفت میڈیکل ٹیسٹ اور ادویات کی فراہمی کا اہتمام بھی کیاگیا تھا۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ مرگی کے مرض کے بارے میں ہمارے معاشرے میں غلط تصورات کچھ زیادہ ہی پائے جاتے ہیں۔
لوگ اس بیماری کو جادو ٹونہ، آسیب یا پھر جن کا سایہ سمجھتے ہیں۔خواتین کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ مناسب علاج کی صورت میں مرگی کے مرض میں مبتلا خواتین شادی کر سکتی ہیں اور بچے بھی پیدا کر سکتی ہیںکیونکہ مرگی کے مرض کو دوائوں کے ساتھ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ مرگی کی بعض دوائیں اور مرض کی تشخیص کے لیے کرائے جانے والے میڈیکل ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مرگی کے مریضوں کو ایک بہت بڑے مسئلہ کا سامنا اس صورت میں بھی کرنا پڑتا ہے کہ اکثر دوائیں مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہیں۔
ادویات کی عدم دستیابی کے باعث بعض اوقات مریض آئی سی یو میں چلا جاتا ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ مرگی کے بعض مریضوں کو دورے سے بچنے کے لیے ماہانہ 30 سے 50ہزار روپے کی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر مریض کے لیے ماہانہ اتنی رقم خرچ کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
Comments
0 comment