فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل ہوتا تو 9 مئی کا سانحہ نہیں ہوتا، چیف جسٹس

فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل ہوتا تو 9 مئی کا سانحہ نہیں ہوتا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پر سوالات اٹھا دیے
فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل ہوتا تو 9 مئی کا سانحہ نہیں ہوتا، چیف جسٹس

ویب ڈیسک

|

6 May 2024

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا، اس کے علاوہ انہوں نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سوالات بھی اٹھا دیے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ کے غیر مستند ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور کئی سوالات اٹھائے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں۔

 جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر ان کی ذمہ داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے۔یہ کس طرح کی رپورٹ کمیشن نے بنائی ہے کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہے؟ ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، آگے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں ٹی ایل پی کے مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے فیصلہ نکالے، مارو، جلاؤ گھیراؤ کرو اور چلے جاؤ یہ کیا طریقہ کار ہے؟

 دوران سماعت فیض آباد دھرنا کمیشن ممبران میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری رپورٹ میں کہیں ذکر نہیں کہ ٹی ایل پی سے کیا تفتیش ہوئی؟ آخر انہیں کیوں تحقیقات میں شامل نہیں کیا گیا۔

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!