سپریم کورٹ کے فیصلوں میں واضح لکھا ہے کہ انتخابی نشان جمہوریت کی روح ہے، جبران ناصر
Web Desk
|
24 Jan 2024
ڈائیلاگ پاکستان کے ساتھ گفتگو میں جبران ناصر نے کہا کہ ملک میں انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کوئی نہیں بات نہیں، اگر ماضی دیکھیں تو 2008 سے یہ سلسلہ کھل کر اب مسلسل سامنے آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کو پاناما میں سزا ہوئی اور آج انہیں ہم بری کررہے ہیں، تو پھر عدلیہ، میڈیا اور ہم اپنے سر پر مٹی ڈال لیںا یا پھر اعتراف کرلیں کہ ہم نے ایک جمہوری حکومت کو گرایا اور ملکی معیشت کا چلتا ہوا پہیہ روکا‘۔
جبران ناصر نے کل کے مخالف کو آج کا رہنما یا لیڈر بنانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ ’اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب ہوتا رہے گا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ وہ بات ہوگئی کہ ہم پہلے بچے کو پولیو کے قطرے نہیں پلوا سکے تو دوسرے بچے کی تیاری کریں گے‘۔ ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ آنے والا کل بہتر ہونا چاہیے۔
پی ایس 110 سے مائیک کے نشان پر الیکشن لڑنے والے آزاد امیدوار نے کہا کہ ’دنیا میں جس نے بھی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کتاب لکھی ہوگی وہ پاکستان میں پچھلے 6 مہینوں سے پیش آنے والے واقعات کا مشاہدہ کر کے اس میں مزید 5 سے 6 چیٹرز شامل کرلے گا۔
’ اتنی زیادہ گمشدگیاں، گرفتاریاں اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بڑھ گیا ہے کہ اب میرا اور آلٹو گاڑی میں بھی یہ عمل انجام دیا جارہا ہے اور آلٹو کہہ رہی ہے کہ بڑی ہوکر ویگو بنوں گی‘۔
جبران ناصر نے انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے 1988 اور 1989 کے فیصلے دیکھیں تو اُس میں واضح لکھا ہے کہ انتخابی نشان پارٹی اور جمہوریت کی روح ہے اور آپ نے روح قبض کرلی تو پھر پیچھے کیا باقی رہ گیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ہاں ہمیشہ قبولیت اور مقبولیت کا فرق رہا ہے، اسی وجہ سے عوام میں مایوسی آگئی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے ووٹ کا فائدہ نہیں اور اگر کوئی آبھی گیا تو اُسے چلنا نہیں دیا جائے گا، ایسی صورت حال میں عوام سوچ رہے ہیں کہ وہ کیوں کہ صبح 9 سے شام پانچ تک اپنی ملازمت کریں اور ٹوٹی پھوٹی جیسی بھی زندگی گزاریں۔
ایک سوال کے جواب میں جبران ناصر نے کہا کہ اختیارات کے معاملے میں عدلیہ، پارلیمنٹ اور ایگزیکٹیو ہے، ایگزیکیٹو کے ماتحت دفاعی ادارے آتے ہیں، جہاں پر ہر چیز کا فیصلہ ہوتا ہے۔ منتخب نمائندوں جب ایوان میں دیکھتے ہیں تو وہاں ارباب اختیار لوگ موجود ہیں جو مہاجر پرندوں کی طرح اسٹیبشلمنٹ کے کہنے پر سیاسی جماعتوں میں شمولیتیں اختیار کرتے ہیں۔
جبران ناصر نے مذہب کے حوالے سے اپنے اوپر عائد ہونے والے الزامات پر کہا کہ ’یہاں آپ کو کبھی ایجنٹ، کبھی کافر، کبھی گستاخ، الغرض ہر قسم کا بہتان لگا دیا جاتا ہے اور یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ صرف مذہبی جماعتیں اس طرح کے الزامات لگاتی ہیں‘۔
Comments
0 comment