کراچی سے تعلق رکھنے والے 72 سالہ بزرگ ماضی میں کنٹریکشن (تعمیر و مرمت) کے کام سے وابستہ تھے تاہم حالات کی وجہ سے وہ اب اپنا گزر بسر ایک چھوٹے سے پتھارے پر کارٹونز کے کپڑے فروخت کر کے کرتے ہیں۔ فیروز علی نے بتایا کہ کبھی کبھی تو سارا دن بیٹھنے کے باوجود بھی بسم اللہ تک نہیں ہوتی مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔
کورنگی میں بک اسٹال پر ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈکیتوں نے با پ اور بیٹے کو ہمیشہ کیلیے سُلا دیا۔ مقتول کے بڑے بیٹے کا کہنا ہے کہ اس طرح سے کسی کا کوئی جائے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔
کراچی کے سینٹرل جیل میں قید ایک قیدی نے آرٹ سیکھنے کے بعد اپنی پینٹنگز تقریبا 10 لاکھ روپے میں فروخت کیں اور یہ پیسے اپنی والدہ کو عمرہ ادائیگی کیلیے دیے۔ 42 سالہ اعجاز جیل کو قید خانہ نہیں بلکہ اصلاح کا گھر سمجھتے ہیں۔
کراچی کے علاقے بہادرآباد اسکارف اور دُپٹے فروخت کرنے والے دس سالہ شہباز کی خواہش ہے کہ وہ اداکار بنیں مگر گھریلو حالات کی وجہ سے وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور دپٹے فروخت کرتے ہیں۔