پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے متعدد پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس نے شہریوں کو کتے کا گوشت کھلانے والے کئی ہوٹلوں پر چھاپے مارے ہیں ۔
Wed Desk
|
3 Nov 2023
فیس بک پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی تصاویر میں مبینہ طور پر یہ دکھایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں کھانے پینے کے کئی مقامات سے کتے کا گوشت برآمد کیا گیا ۔
15 ستمبر کو ایک فیس بک صارف نےاپنی پوسٹ میں لکھا کہ ”خیبرپختونخوا پولیس کے متعدد ہوٹلوں پر چھاپے، مختلف قسم کے کتے [ گوشت] اور پکی ہوئی کڑاہیاں ضبط کر لی گئیں ۔“
فیس بک صارف نے یہ الزام بھی لگایا کہ ہوٹل کے مالک نے گذشتہ 5 برسوں سے شہریوں کو کتے کا گوشت کھلانے کا اعتراف کیا ہے۔
اس نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس پوسٹ کو 6ہزار 6 سوسے زائد مرتبہ شیئر اور 256 بار لائک کیا گیا۔
اسی سے ملتا جلتا دعویٰ ایک اور فیس بک صارف نے بھی پوسٹ کیاجسے 1ہزار سے زائد مرتبہ شیئر کیا گیا۔
حقیقت
حکام کا کہنا ہے کہ حال ہی میں خیبر پختونخوا کے کسی بھی ریسٹورنٹ سے کتے کا گوشت پکڑے جانے کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
محکمہ خوراک خیبرپختونخوا کےایڈیشنل ڈائریکٹرکمیونیکیشن خان غالب نے ان تمام دعوؤں کو ”جعلی خبریں“ قرار دیا ہے۔
انہوں نےٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ ”یہ ہر سال لوگ وائرل کرتے ہیں ، یہ ٹوٹلی فیک ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔“
خان غالب کا مزید کہنا تھا کہ کھانے پینے کی چیزوں کا معائنہ محکمہ فوڈ کرتا ہے، پولیس نہیں۔
اس کے علاوہ، ڈائریکٹوریٹ جنرل انفارمیشن خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل اطلاعات اور تعلقات عامہ محمد عمران خان نے بھی ان دعوؤں کو مسترد کر دیا۔
انہوں نےٹیلی فون پرجیو فیکٹ چیک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ تصویر 2برس سے چل رہی ہے۔“
عمران خان نے بتایا کہ انہوں نے فوڈ ڈیپارٹمنٹ سے 2 مرتبہ چیک کیاہے اور انہوں نے کتے کا کوئی گوشت ضبط نہیں کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ سال پہلے بھی سوشل میڈیا پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تصاویر صوبہ سندھ کے ضلع حیدر آباد کے ریستورانوں کی ہیں۔
اس کے بعد جیو فیکٹ چیک نےصوبہ سندھ کے ضلع حیدرآباد میں سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز غلام رسول شاہ سےبھی رابطہ کیا۔
ان کاکہنا تھا کہ انہوں نے بھی 3 سال قبل ایک مقامی ہوٹل کے بارے میں ایسے دعوے سنے تھے لیکن فوڈ اتھارٹی نے جب اس ریسٹورنٹ کا معائنہ کیا تو ان کو وہاں سے کتے کا گوشت نہیں ملا۔
اس کے علاوہ ، ریورس امیج سرچ انجنزکا استعمال کرتے ہوئے جیو فیکٹ چیک کو معلوم ہوا کہ جھوٹے دعوؤں کے ساتھ گردش کی جا رہی تصاویر کو 2018 ءمیں بھی آن لائن شیئر کیا گیا تھا۔تاہم، جیو فیکٹ چیک اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ تصاویر کہاں اور کب لی گئیں۔
Comments
0 comment