آرمی چیف کا یوتھ کنونشن سے خطاب، سیاسی استحکام، سوشل میڈیا پروپیگنڈے کا تذکرہ

آرمی چیف کا یوتھ کنونشن سے خطاب، سیاسی استحکام، سوشل میڈیا پروپیگنڈے کا تذکرہ

سوشل میڈیا پر من گھڑت پروپیگنڈے کرنے کا مقصد مایوسی پھیلانا ہے، جنرل سید عاصم منیر
آرمی چیف کا یوتھ کنونشن سے خطاب، سیاسی استحکام، سوشل میڈیا پروپیگنڈے کا تذکرہ

ویب ڈیسک

|

24 Jan 2024

چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے نوجوانوں کے لیے منعقد ہونے والے کنونشن سے مدلل اور اہم خطاب کیا ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والے کنونشن میں شرکت کرنے والے نوجوانوں نے آرمی چیف سے بلا خوف و خطر سوالات کیے جس کا جنرل سید عاصم منیر نے تفصیلات سے جواب دیا۔

ایک سوال کے جواب میں  آرمی چیف نے پاکستان بننے کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ پاکستان کی بنیاد برصغیر کے مسلمانوں کی مجموعی سوچ کی عکاس تھی، بر صغیر کے مسلمانوں کو اس بات کا یقین تھا کہ مذہب اور اسلامی تہذیب و تمدن ہندو سماج سے یکسر مختلف ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اس اختلاف کی وجہ سے دونوں قومیتوں کا ساتھ رہنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آج کا نوجوان ہندو تسلط سے چھٹکارا پانے کے بعد مغربی تہذیب کی طرف راغب ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔  جب اللہ تعالی نے ہمارے دین کو دین کامل قرار دے دیا تو ہمیں اپنے دین اور اس کی تعلیمات پر پورا یقین ہونا چاہیے یہ یقین ہماری خود اعتمادی کا محور ہے۔ 

سوشل میڈیا کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے آرمی چیف نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارا مذہب ہمیں کسی بھی بات پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کا حکم دیتا ہے، پاکستان میں پھیلایا جانے والا جھوٹا پروپیگنڈا ہمارے ملک کو میسر اللہ تعالی کی نعمتوں سے روح گردانی ہے۔

سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو مزید واضح کرتے ہوئے آرمی چیف نے شرکاء کو متنبہ کیا کہ ان منفی اثرات سے بچاو ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے۔ من گھڑت پروپیگنڈے کرنے کا مقصد مایوسی پھیلانا ہے۔ اب یہ آپ پر لازم  ہے کہ اس مایوسی کو نظر انداز کر کے اپنی خود اعتمادی پر بھر وسہ کریں۔ 

انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ ہمیں اپنے ملک ، اس کی افرادی قوت اور اس میں موجود قدرتی وسائل اور سب سے بڑھ کر اپنی قومی شناخت پر اعتماد اور فخرہونا چاہیے۔ 

ایران کے ساتھ حالیہ تناؤ کے دوران افواج پاکستان کے ردعمل کو شرکاء نے کھلے دل سے سراہا۔ 

وزیر اعظم پاکستان نے اس پر اظہارِخیال کرتے ہوئے اس سارے بحران کے دوران آرمی چیف کے کردار کو مرکزی حیثیت کا حامل قرار دیا۔ 

دوران کنونشن شرکاء کی جانب سے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کا ذکر ہوا جس پر آرمی چیف نے اس بات پر زور دیا کہ جب ہماری عوام دور عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خوبیوں کی حامل ہوگی تو ان کے حکمران بھی حضرت عمر جیسے ہوں گے اور ویسے ہی طرز حکمرانی ہوگی۔

آرمی چیف نے مزید یہ بھی کہا کہ پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس کی سیاست کا محور طاقت ہے، جو حکومت میں ہے وہ حکومت چھوڑنا نہیں چاہتا اور حکومت سے باہر بیٹھے سیاسی عناصر جلد از جلد اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں  اور اداروں میں موجود سب لوگ اچھے نہیں ہوسکتے کیونکہ ان پارٹیوں اور اداروں کے افراد اسی معاشرے کی پیداوار ہیں اور افراد کا ان اچھائیوں اور برائیوں سے اثر لینا ایک فطری عمل ہے۔ اس ملک کی بہتری کے لیے میں نے اور آپ نے اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی ہے۔

ملک میں سیاسی استحکام کے فقدان کے بارے میں اٹھائے جانیوانے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے پارلیمان کی پانچ سالہ مدت کی اہمیت پر زور دیا ۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عوام پانچ سال کے لیے پارلیمان کو منتخب کرتی ہے اور اس دوران ایک جمہوری طریقے سے اگر حکومت یا اس کا سربراہ تبدیل ہو جائے تو اسے سیاسی عدم استحکام سے تشبیہ دینا یقیناً ایک منفی پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے Mother of Democracy برطانیہ اور پڑوسی ملک ہندوستان کی مثالیں دیں جہاں پارلیمان کے پانچ سال کی مدت کے دوران متعدد دفعہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں۔ 

شرکاء کی طرف سے نگران حکومت کے تین ماہ سے زائد عرصے  کی حکمرانی پر سوالات اٹھائے گئے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ کوئی بھی نگران حکومت انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت کو ذمہ داری تفویض کیے بغیر نہیں جاسکتی۔

آرمی چیف نے کہا کہ انتخابات میں ہونے والی تاخیر بھی آئینی تقاضوں یعنی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے ہوئی اور بعد ازاں انتخابات کی تاریخ کا تعین عدالتی اسکروٹنی کے بعد کیا گیا۔ جیسے ہی انتخابات کا عمل مکمل ہوا نگران حکومت اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائے گی۔ 

گلگت بلتستان کے حقوق کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ ہم سب کی شناخت پاکستان ہے، جو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ گلگت بلتستان والوں کے پاس ہے وہی میرے پاس بھی ہے اور یہی شناخت ہمیں متحد رکھے ہوئے ہے۔ 

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر طرح کے منفی پروپیگنڈے کے اثرات سے بچتے ہوئے تمام منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی کریں۔

 

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!