سندھ حکومت نے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو 52 کروڑ مالیت کی لگژری گاڑیاں دینے کیلیے فنڈ جاری کردیا

ویب ڈیسک
|
22 Apr 2025
سندھ حکومت کے کفایت شعاری کے دعوے خاک میں مل گئے، کیونکہ 6 کمشنرز اور 29 ڈی سیز کے لیے 52 کروڑ روپے کی لگژری گاڑیاں خریدی جارہی ہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے کفایت شعاری کے دعووں کے برعکس، صوبے کے 6 کمشنرز اور 29 ڈپٹی کمشنرز (ڈی سیز) کے لیے 52 کروڑ 66 لاکھ 70 ہزار روپے کی لگژری گاڑیاں خریدی جائیں گی۔
اس کے لیے محکمہ خزانہ نے رقم جاری کر دی ہے، جبکہ 138 اسسٹنٹ کمشنرز (اے سیز) کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کی گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔
سندھ کابینہ کی منظوری کے بعد محکمہ خزانہ نے 15 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق: 6 کمشنرز (کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، میرپور خاص، شہید بے نظیر آباد اور سکھر) کے لیے 10 کروڑ 80 لاکھ 84 ہزار روپے کی 6 نئی گاڑیاں خریدی جائیں گی۔
ہر کمشنر کو 1 کروڑ 80 لاکھ 14 ہزار روپے کی فارچونر (4X4) ڈیزل 2755 سی سی گاڑی دی جائے گی۔
اس کے علاوہ 29 ڈپٹی کمشنرز کے لیے 41 کروڑ 65 لاکھ 86 ہزار روپے کی 29 گاڑیاں خریدی جائیں گی۔ ہر ڈی سی کو1 کروڑ 44 لاکھ 34 ہزار روپے کی ہائی لکس روکو (4X4) ڈیزل گاڑی ملے گی۔
دوسری جانب، صوبے بھر کے 138 اسسٹنٹ کمشنرز (اے سیز) کے لیے ڈبل کیبن (4X4) لگژری گاڑیاں خریدنے کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
تاہم، یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے فی الحال روک دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے امریکا کے دورے سے قبل اس ہفتے اسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دی تھی۔ حکومتی دعووں اور اقدامات میں تضاد
حکومت سندھ نے ستمبر 2024ء میں کفایت شعاری مہم کے تحت اخراجات میں کمی کا دعویٰ کیا تھا، لیکن افسران کے لیے لاکھوں روپے کی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ ان دعووں کے بالکل برعکس ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مالی مشکلات کی وجہ سے حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام 2024-25ء میں کوئی نیا منصوبہ شروع کرنے سے گریز کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں کے پاس پہلے ہی لگژری گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اور یکمشت اتنی مہنگی گاڑیاں خریدنا خزانے پر غیر ضروری بوجھ ہے۔
اس اقدام پر عوامی حلقوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ جب عام عوام کو بنیادی سہولیات میسر نہیں، تو اتنے بڑے اخراجات کیوں کیے جا رہے ہیں؟
Comments
0 comment