مصنوعی بارش کا آغاز کب سے ہوا اور یہ کیسے برسائی جاتی ہے ؟ جانیے
ویب ڈیسک
|
18 Dec 2023
لاہور میں دو روز قبل متحدہ عرب امارات کے تعاون سے فضائی آلودگی اور اسموگ پر قابو پانے کیلیے مصنوعی بارش کی گئی۔
اس ہلکی بارش کے اثرات کچھ یوں نکلےکہ لاہور شہر جو دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر تھا وہ پانچویں نمبر سے بھی نیچے آگیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصنوعی بارش کا طرح برسائی جاتی ہے؟
مصنوعی بارش کے طریقہ کار کو سائنسی زبان میں کلاؤڈ سیڈنگ کہتے ہیں، جس کے ذریعے بادلوں کے بخارات کو بارش میں تبدیل کرنے کی رفتار بڑھائی جاتی ہے اور موسم میں یہ مصنوعی تبدیلی لانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس عمل میں سب سے پہلے سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے ایسے بادلوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو ممکنہ طور پر شدید بارش کا باعث بن سکیں، پھر ایک جہاز کی خصوصی پرواز کے ذریعے ان بادلوں کے پاس ایسے سلور آئیڈائیڈ یا ڈرائی آئس کا اسپرے کیا جاتا ہے جن سے چین ری ایکشن ہوتا ہے۔
یہ عمل اتنا خطرناک ہے جس میں تھوڑی سی غفلت یا دیر بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ اسپرے کے عمل سے بادل غیر مستحکم یعنی پھیلنے لگتا ہے اور جہاز کو فوراً وہاں سے باہر نکالنا پڑتا ہے، ورنہ اس کے تباہ ہونے کے امکانات بہت زیادہ حد تک بڑھ سکتے ہیں۔
طیاروں یا دیگر ڈیوائسز کی مدد سے بادلوں پر نمک (سلوور آئیوڈائیڈ یا کلورائیڈ) کے چھڑکاؤ سے بادلوں میں آئس کرسٹل (برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے) بنتے ہیں۔
جس کے بعد بادلوں میں پہلے سے موجود نمی ان آئس کرسٹلز کو بارش میں بدل دیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اوسط چار گھنٹوں کی پرواز کے دوران 24 کلاؤڈز کو ’سیڈ‘ کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں ہلکی پھلکی بارش بھی فضائی آلودگی میں کمی کا باعث بن سکتی ہے جیسا کہ ہم نے لاہور میں دیکھا مگر یہ ضروری بھی نہیں کہ یہ طریقہ ہمیشہ کارگر ثابت ہو۔
امریکا کے ماہر موسمیات وینٹڈ جے نے ماہر طبیعات کے ساتھ ملکر کیا، جو کامیاب رہا، پھر انڈیا میں اس کا پہلا تجربہ 1952 میں کیا گیا تھا اور پھر 1960 کی دہائی کے دوران امریکی فوج نے ویتنام کے علاقوں میں فوجی سامان کی ترسیل روکنے کے لیے متنازع طور پر یہ تکنیک استعمال کی گئی۔
پہلے کلاؤڈ سیڈنگ جہاز کے علاؤہ توپ کے گولوں یا طاقتور جنریٹر کی مدد سے بھی کی جاتی تھی، پاکستان میں سال 2000 کے دوران سندھ کے ضلع تھر پارکر اور پنجاب کے چولستان میں اسکے 24 تجربات کیے گئے۔
جن میں سے 15 میں کامیابی بھی ملی مگر اس پر کام نہیں کیا گیا، جس کی بڑی وجہ اس عمل میں لگنے والی لاگت ہے۔
چین، متحدہ عرب امارات اور بعض انڈین ریاستیں قحط جیسی صورتوں میں بھی کلاؤڈ سیڈنگ کی آزمائش کرتی ہیں۔
Comments
0 comment