خیبرپختونخوا : ’والدین کا معاش میں ہاتھ بٹانے والے بچوں کیلیے تعلیم مشکل ہوجائے گی‘
آفتاب مہمند
|
29 Aug 2024
’سیکنڈ یا دوپہر کی شفٹ ختم ہونے سے اُن بچوں کیلیے تعلیم کا حصول مشکل ہوجائے گا جو معاش میں والدین کا ہاتھ بٹاتے تھے‘۔
یہ جملے ہیں خیبرپختونخوا کے اضلاع میں بند ہونے والے اسکول میں زیرتعلیم بچے کے والد کے، جو حکومتی کی جانب سے اسکولوں میں دوپہر کی شفٹ ختم ہونے پر شدید پریشان ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ اب اُن کی اولاد کس طرح سے علم حاصل کرے گی۔
خیبرپختونخوا میں 14 اضلاع کے 176 سکولوں میں سیکنڈ شفٹ ختم کر دی گئی۔ صوبائی محکمہ تعلیم نے باقاعدہ اعلامیہ جاری کر دیا۔
اسی سلسلے میں ضلعی ایجوکیشن افسران کو سیکنڈ شفٹ کے اساتذہ کو تنخواہیں ادا نہ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ محکمہ ایلیمنڑی اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن خیبر پختونخوا کے دستاویزات کے مطابق سیکنڈ شفٹ کو ختم کرانے والے اسکولوں میں پشاور کے 43، مردان کے 42، اپر دیر کے 25، سوات کے 17 اور چارسدہ کے 14 سکول شامل ہیں۔
اسی طرح ضلع شانگلہ کے 8، ہری پور کے 7، کوہاٹ کے 5، مالاکنڈ میں 4، بٹگرام کے 3، لوئر دیر کے 3، نوشہرہ کے 2، ایبٹ آباد کے 2 جبکہ مانسہرہ کا ایک سکول شامل ہے۔ ان سکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے سکولز شامل ہیں۔ محکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی جانب سے ضلعی ایجوکیشن افسران کو سیکنڈ شفٹ کے اساتذہ کو تنخواہیں ادا نہ کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
محکمہ ایلیمنڑی اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سیکنڈ شفٹ سے مستفید ہونے والے کئی بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ سیکنڈ شفٹ میں اکثر وہ بچے داخلہ لیکر پڑھتے تھے جو پہلے شفٹ سے محروم ہو کر نجی سکولوں میں داخلے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
’اسی طرح وہ بچے جو دن میں مشقت و محنت کرکے اپنے اہل خانہ کا ہاتھ بٹھاتے ہیں تو انکو بھی حصول تعلیم کا ایک نادر موقع تھا لیکن غریب طبقات کے بچے اب تعلیم کی حصول سے محروم ہو جائیں گے۔ ان بچوں کے والدین کا مطالبہ ہے کہ صوبائی حکومت مداخلت کرکے مزکورہ فیصلے کو واپس لیا جائے تاکہ انکے بچوں کا مستقبل ضائع ہونے سے بچ جائے۔‘
رابطہ کرنے سکولز آفیسرز ایسوی ایشن خیبر پختونخوا کے صدر سمیع اللہ خلیل نے بتایا کہ لگتا ہے کہ حکومت سیکنڈ شفٹ میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں ادا نہیں کر سکتی، اسلئے مزکورہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں یہ مسئلہ بھی ضرور درپیش ہے کہ سیکنڈ شفٹ میں بچوں کی انرولمنٹ مطلوبہ تعداد سے کم ہے اور وہاں اساتذہ کو تو تنخواہ ادا کرنی ہوتی ہیں لیکن اسکا یہ بھی مطلب نہیں کہ پورا شفٹ ہی ختم کیا جائے۔
ان کے بقول ’اس سال اگر نہیں تو اگلے یا اس سے بھی اگلے سال انرولمنٹ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ صرف بچوں کے والدین نہیں صوبہ بھر کے اساتذہ بھی حکومتی اس اقدام کو مسترد کرتی ہے۔ جہاں اب ہزاروں کی تعداد میں بچے و بچیاں مزکورہ اقدام کے نتیجے میں تعلیم کی روشنی کی حصول سے محروم ہو جائیں گے تو ایسے میں ان سکولوں میں سیکنڈ شفٹ میں پڑھانے والے سینکڑوں اساتذہ بھی بے روزگار ہو جائیں گے جیساکہ اب سیکنڈ شفٹ میں پڑھانے والے اساتذہ تو مستقل ملازم نہیں، بس انکو ماہانہ 22 روپے دئیے جاتے ہیں۔ ایسا ہی فیصلہ کرتے وقت حکومت و ادارے نے اساتذہ تنظیموں کو اعتماد میں لئے بغیر ایک فیصلہ کرکے تعلیمی شعبہ کو کافی نقصان پہنچا دیا گیا ہے۔‘
حکام محکمہ تعلیم کے مطابق آئی ایم یو نے ڈی ای اوز کو رپورٹ کیا تھا کہ مزکورہ اسکولوں میں سیکنڈ شفٹ میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد 25 سے کم ہے، ایک ہی کلاس کیلئے 25 طلباء یا طالبات کی انرولمنٹ ہونا لازمی ہوتا ہے لہذا انہی کی رپورٹ پر محکمہ کو رپورٹ کیا گیا تھا۔ جہاں ان سکولوں میں سیکنڈ شفٹ میں پڑھانے والے اساتذہ کا تعلق ہے تو وہ فکس پے پر تھے، مستقل ملازم نہیں۔
اسی حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم فیصل ترکئی کا کہنا ہے کہ سیکنڈ شفٹ سکولوں کو محکمے کی رپورٹ پر بند کیا گیا ہے۔ بند ہونے والے سکولوں میں طلباء کی تعداد کم تھی۔ اسی طرح بند کئے جانے والے سکولوں کے بچوں کو قریبی سکولز میں ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔ بچوں کی تعلیمی سلسلہ جاری رہے گا۔ انکو ایڈجسٹ کرکے دیگر سکولوں میں معیاری تعلیم دی جا رہی ہے
Comments
0 comment