پارلیمنٹ جانا چاہیے تھا، عمران خان / اراکین پارلیمنٹ دشمن نہیں جاکر بات کریں، چیف جسٹس

پارلیمنٹ جانا چاہیے تھا، عمران خان / اراکین پارلیمنٹ دشمن نہیں جاکر بات کریں، چیف جسٹس

نیب ترامیم کیس میں عمران خان کا چیف جسٹس سمیت ججز سے مکالمہ
پارلیمنٹ جانا چاہیے تھا، عمران خان / اراکین پارلیمنٹ دشمن نہیں جاکر بات کریں، چیف جسٹس

ویب ڈیسک

|

6 Jun 2024

چیف جسٹس آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس میں عمران خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ دشمن نہیں جاکر بیٹھیں اور بات کریں جبکہ بانی پی ٹی آئی نے بھی اسمبلی نہ جانے کی غلطی کا اعتراف کرلیا۔

نیب ترامیم کیس کی سماعت میں بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوئے اور انہوں نے کیس کے حوالے سے دلائل دیے۔ اس دوران پانچ رکنی بینچ کے ججز اور چیف جسٹس نے عمران خان سے مکالمہ بھی کیا۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں جس کے بعد عمران خان نے بولنا شروع کردیا اور کہا کہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا آپ بتاسکتے ہیں میں نے کب پوائنٹ اسکورنگ کی؟ آپ کے بیان سے لگتا ہے کہ میں کوئی غیر ذمہ دار شخص اور خطرناک آدمی ہوں، مگر یہ بات بالکل غلط ہے‘۔

اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ وہ کیس ختم اور اُس پر فیصلہ ہوچکا ہے، ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، لہذا آپ اب اس کیس پر رہتے ہوئے بات کریں۔

عمران خان نے کہا کہ نیب کے اختیارات کم ہوں تو میرے لئے اچھا ہوگا، لوگوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ممالک ہیں ان کا کیا ہوگا؟ اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے ترسیلات زر آتی ہیں جبکہ اشرافیہ اپنا پیسہ ملک سے باہر بھیجتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے بولا کہ ہمارے ساتھ تو ظلم ہورہا ہے، ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے اور میری آخری امید سپریم کورٹ ہی ہے۔

بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ نیب کورٹ کیسے چلتی ہے یہ میں نے جیل میں دیکھ لیا۔ عمران خان نے نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم سے متعلق جج جسٹس امین الدین کے سوال جواب دیتے ہوئے کہا کہ 700ارب ڈالر غریبوں کے اشرافیہ لوٹ رہی ہے، پارلیمنٹ والوں نے تو خود کو بچانے کیلئے ترامیم کیں جبکہ توشہ خانہ کیس میں مجھے چودہ سال قید کی سزا ہوئی۔ اس پر جسٹس امین الدین نے عمران خان کو بات سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ صرف متعلقہ کیس پر ہی بات کریں۔

بانی پی ٹی آئی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نیب کی جانب سے دو کروڑ کی گھڑی تین ارب کی بتائی گئی، نیب چئیرمین سپریم کورٹ کو لگانا چاہئے۔ 

عمراں خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ چئیرمین نیب کی تقرری کا فیصلہ سیاستدانوں کی بجائے تھرڈ ایمپائر کرتا ہے، برطانیہ میں مورل اتھارٹی اور عوامی نمائندوں کا احتساب ہے، فارم 45 والی پارلیمنٹ ہی یہ کام کرسکتی ہے۔ اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے بانی پی ٹی آئی کو روکتے ہوئے کہا کہ وہ بات نہ کریں جو کیسز عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

چیف جسٹس 

عمران خان کی جانب سے سائفر کیس کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں۔

سماعت کے دوران عمران خان نے چیف جسٹس کے سامنے پارلیمنٹ نہ جانے کی غلطی کا اعتراف کیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ جاکر ملیں اور بیٹھ کر بات کریں، یہ دشمن نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر ہم نے صدر اور الیکشن کمیشن کو آپس میں بات کرنے کی ہدایت کی کیونکہ ہم سیاسی بات کرنا نہیں چاہتے تھے اور آپ کو روکنا بھی نہیں چاہتے تھے تاکہ کوئی اعتراض نہ ہو۔ چیف جسٹس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’سیاستدان آپس میں مل کر بیٹھیں اور مسائل کو حل کریں‘۔ 

چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنے دور حکومت میں ایمنسٹی اسکیم کیوں دی؟ اس پر عمران خان نے بتایا کہ ایمنسٹی اس لئے دی کہ معیشت بلیک تھی اسے ایک روٹ پر لانا تھا۔

جسٹس امین الدین

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا ہے لہذا آپ صرف کیس پر بات کریں۔

جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے چئیرمین اور ممبران کا معاملہ ہائیکورٹ میں آیا تھا اور اس الیکشن کمشنر آپ نے خود لگایا تھا، 76 سالوں میں پارلیمنٹ کو نیچا دکھایا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا اس وقت جیل میں ہونا بدقسمتی ہے کیونکہ آپ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں آپ کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے بانی پی ٹی آئی کی گفتگو کے دوران ریمارکس دیے کہ پتہ نہیں آپ نے میرا اختلافی نوٹ پڑھا ہے یا نہیں، جس میں میں نے آپ کی حکومت کے تین سالوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل

جسٹس مندو خیل نے کہا کہ خان صاحب آپ جو باتیں کررہے ہیں مجھے خوفزدہ کررہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو اپنے ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں، جب آگ لگی ہوتو یہ نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک، پہلے آپ آگ کو بجھائیں، اپنے گروپ کو لیڈ کریں، آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں سیاستدان ہوں گے۔

جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ہمیں تو اصل گلہ ہی سیاستدانوں سے ہے، اگر ہم بھی خدانخواستہ فیل ہوگئے تو کیا ہوگا۔

عمران خان کے جیل بھیجنے کے شکوے پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاستدان جیلوں میں جاتے ہیں تو ان میں پختگی آتی ہے۔

نیب چیئرمین کی سپریم کورٹ کی جانب سے تقرری پر جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ پارلیمنٹ میں جاکر ترمیم کرلیں کیونکہ پارلیمنٹ ہی یہ کام کرسکتی ہے۔

دلائل ختم ہونے کے بعد چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے معاونت پر اُن کا شکریہ ادا کیا جبکہ جواب میں عمران خان نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا شکریہ ادا کیا۔

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!