پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں، چیف جسٹس سمیت پانچ ججز کا اختلافی نوٹ

پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں، چیف جسٹس سمیت پانچ ججز کا اختلافی نوٹ

چیف جسٹس، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ جاری کیا
پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں، چیف جسٹس سمیت پانچ ججز کا اختلافی نوٹ

ویب ڈیسک

|

12 Jul 2024

مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا فیصلہ سامنے آگیا جس میں 8 ججز نے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت 5 ججز نے اس کی مخالفت کی ہے۔

اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والوں میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں جنہوں نے اکثریتی فیصلے کی مخالفت کی اور اختلافی نوٹ بھی لکھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ سنی اتحاد کونسل الیکشن میں کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی اور نہ ہی اُس نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائی، آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے۔ 

اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی۔ آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ 

اختلافی نوٹس میں لکھا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ لیا نہ مخصوص نشست کی کوئی فہرست دی، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ 2024کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں، آرٹیکل 51 کی ذیلی شق 3کے تحت قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 336 ہیں۔

مشترکہ اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ آئین نے خواتین اور اقلیتوں نشستوں کو بھی ضمانت دے رکھی ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں متناسب نمائندگی کے قانون کے تحت دی جاتی ہیں، ان نشستوں کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا ان کو پر کیا جانا ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ وہ امیدوار جنہوں نے تحریک انصاف سے وابستگی کے حلف نامے جمع کرائے صرف انہیں تحریک انصاف کا امیدوار قرار دیا جائے اور پھر اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں جبکہ جن امیدواروں نے دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کی انہیں بھی اُسی تناسب سے نشستیں دی جائیں، ایسے اراکین نے بے شک عوامی خواہش کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کی ہو۔

جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں۔

 

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!