وفاقی کابینہ نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی
ویب ڈیسک
|
8 Nov 2025
وزیرِاعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت باکو سے ورچوئل اجلاس میں وفاقی کابینہ نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی۔ اجلاس میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اراکین کو تفصیلی بریفنگ دی، جس کے بعد ترمیمی مسودہ کو شق وار منظوری دی گئی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کے تحت صوبوں کے مالی حصے سے متعلق متنازع معاملہ شامل نہیں کیا گیا۔ اب یہ ترمیمی بل سینیٹ میں بحث اور منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
دوسری جانب، 27ویں ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ بارسٹر علی طاہر نے وفاق، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بناتے ہوئے آئینی درخواست دائر کی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مجوزہ ترمیم آئین کی بنیادی ساخت کو متاثر کر سکتی ہے، عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کے اصولوں کی خلاف ورزی کا سبب بنے گی، اور شہریوں کے انصاف کے بنیادی حق کو مجروح کرے گی، جو 1973 کے آئین کے تحت محفوظ ہے۔
مجوزہ ترمیم تین اہم شعبوں پر مرکوز ہے
عدلیہ،
وفاق و صوبوں کے اختیارات،
ادارہ جاتی ڈھانچہ
ترمیم میں صوبوں میں وفاقی آئینی عدالتوں کے قیام اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے نظام کی بحالی کی تجویز شامل ہے۔
اس کے علاوہ ججوں کی ان کی رضامندی کے بغیر تبادلے کی اجازت بھی دی گئی ہے، جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے اور حکومت کا اثر و رسوخ بڑھ سکتا ہے۔
ترمیم کے تحت آرٹیکل 243 میں بھی تبدیلی کی تجویز ہے جو مسلح افواج کے کنٹرول سے متعلق ہے۔ اس وقت وزیراعظم فوج کے کمانڈر ان چیفس کے طور پر ذمہ دار ہیں جبکہ صدر مملکت کو "سپریم کمانڈر" کا عہدہ حاصل ہے۔
ذرائع کے مطابق 26ویں ترمیم کے بعد، جس میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت پانچ سال کر دی گئی تھی، نئی ترمیم کا مقصد اعلیٰ عسکری عہدوں کے اختیارات اور مدت کے حوالے سے ابہام کو دور کرنا ہے۔
ترمیم کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے یعنی سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔
ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو پیپلز پارٹی کی حمایت ناگزیر ہے، جب کہ حکومتی اتحادیوں میں (ن) لیگ، ایم کیو ایم، بی اے پی اور آزاد اراکین شامل ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں نے اس ترمیم کی سخت مخالفت کی ہے۔
Comments
0 comment