بوسنیا نسل کشی میں مارے جانے والے 14 افراد کی 29 سال بعد تدفین
Webdesk
|
12 Jul 2024
بوسنیا اور ہرزیگوینا میں 29 سال قبل ہونے والی نسل کشی میں مارے جانے والے 14 افراد کی بالاخر تدفین کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے سالانہ یوم یاد منانے کے دو ماہ بعد ہزاروں لوگ 1995 کی نسل کشی کی یاد کا دن منانے کے بعد سریبرینیکا کے 14 متاثرین کی باقیات کی 29 سال بعد تدفین کی گئیں۔
جن کی باقیات دفن کی گئیں اُن میں 13 مرد اور ایک نو عمر لڑکا تھا جن کی حال ہی میں ڈی این اے تجزیے کے ذریعے شناخت ہوئی تھی، الجزیرہ کے مطابق تمام افراد کی تدفین مشرقی بوسنیا میں سربیرینکا کے ایک قبرستان میں کی گئی۔
اپنے بائیس سالہ بھائی کی تدفین کیلیے آئے اور نسل کشی میں بچ جانے والے شہری مرزا بنیادی نے بتایا کہ تقریباً تین دہائیوں بعد اپنے بھائی کی باقیات دریافت کرنے کا دکھ ناقابل بیان تھا۔ "جب بوسنیا میں مسنگ پرسنز انسٹی ٹیوٹ نے مجھے میرے بھائی کے کپڑوں اور اس کے پاس موجود اشیاء کی تصویریں دکھائیں تو مجھے ایسا دھچکا لگا تھا کہ ناقابل بیان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ خبر سننے کے بعد میرے ذہن میں 1992 سے 1995 کے درمیان جنگ کے ان تمام سالوں کے مناظر دوبارہ آنکھوں میں گھومنے لگے تھے کیونکہ اُس وقت میں 15 برس کا تھا اور یادداشت بھی اچھی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سب سے مشکل کام اپنے والد اور بہن کو بھائی کے انتقال کی خبر کا بتانا تھا۔ رپورٹ کے مطابق مقتول کے والد اور بہن نے بھی تدفین میں شرکت کی۔
واضح رہے کہ یورپ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے نتیجے میں ہونے والی اموات کو نسل کشی تسلیم کیا تھا۔ 11 جولائی 1995 کو، بوسنیائی سرب افواج نے اقوام متحدہ کے زیرِ تحفظ سربرینیکا کے محفوظ علاقے پر قبضہ کر لیا، کم از کم 8000 بوسنیائی مردوں اور لڑکوں کو ان کی بیویوں، ماؤں اور بہنوں سے الگ کر کے ذبح کر دیا گیا تھا۔
جن لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی ان کا جنگلوں اور سریبرینیکا کے آس پاس کے پہاڑوں کے ذریعے مسلسل تعاقب کیا گیا۔ایک مورخ، نے یہ بھی لکھا ہے کہ بین الاقوامی برادری غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے ساتھ ایک اور ظلم سے گزر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم غزہ میں جو تصاویر دیکھ رہے ہیں ان میں فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم اور نسل کشی کی عکاسی کی گئی ہے۔
Comments
0 comment