پاکستان کی 66 فیصد آبادی غذائی خوراک سے محروم ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ
ویب ڈیسک
|
12 Dec 2024
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک حالیہ رپورٹ نے پاکستان میں غذائیت سے بھرپور خوراک کے قابل استطاعت چیلنج پر روشنی ڈالی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنی توانائی اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے کا متحمل نہیں ہے۔
'فِل دی نیوٹرینٹ گیپ' (FNG) کے تجزیہ کے مطابق "صرف یومیہ توانائی پر مشتمل خوراک کی تخمینی لاگت دیہی بلوچستان میں 18 روپے فی کس سے لے کر شہری سندھ میں 32 روپے فی کس تک ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا کہ "قومی طور پر صرف 5 فیصد آبادی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے اخراجات برداشت رہی ہے۔"
انفرادی غذائیت کی ضروریات کو پورا کرنے والی خوراک کی یومیہ قیمت کافی زیادہ تھی، خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں میں فی کس 67 روپے سے لے کر شہری سندھ میں 78 روپے فی کس ہے۔
رپورٹ کے مطابق "اوسط طور پر، 66 فیصد آبادی ملک بھر میں غذائیت سے بھرپور خوراک کے متحمل نہیں تھی"، اور "عدم استطاعت کے پی کے دیہی علاقوں میں 59 سے لے کر بلوچستان کے دیہی علاقوں میں 84 فیصد تک ہے۔"
رپورٹ میں نوعمر لڑکیوں، حاملہ اور ان خواتین کے لیے مخصوص غذائیت کی ضرورت پر زور دیا گیا جو اپنے بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، "12-23 ماہ کی عمر کے بچوں کے لیے خاندان کے دیگر افراد کے مقابلے میں غذائیت سے بھرپور خوراک کی قیمت سب سے کم ہوتی ہے کیونکہ وہ کم خوراک کھاتے ہیں۔"
مزید برآں، ڈبلیو ایف پی نے مذکورہ گروپ کی اچھی غذائیت پر زور دیا کیونکہ "اس عمر کے دوران غذائی اجزاء کی مقدار کو پورا کرنے میں ناکامی کے بھی زندگی بھر کے نتائج ہوتے ہیں۔"
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سماجی تحفظ کے پروگرام، جیسے کفالت کیش اور بے نظیر انکم سپورٹ، "غذائی خوراک کی ماہانہ لاگت کا صرف 13 فیصد پورا کرتے ہیں۔"
تاہم تجزیہ میں کہا گیا ہے کہ بے نظیر نشو ونما پروگرام کے تحت جسے "2020 میں 14 اضلاع میں پائلٹ کیا گیا تھا تاکہ سب سے زیادہ کمزوروں کے غذائیت کے نتائج کو بہتر بنایا جا سکے،" حکومت کمزور شعبے کو ماہانہ 3000 روپے کی امداد فراہم کر رہی ہے۔
Comments
0 comment