26ویں آئینی ترمیم، پی ٹی آئی کا کالعدم سے سیاسی جماعت تک کا سفر
ویب ڈیسک
|
22 Oct 2024
ایک ماہ کے طویل شور، مشاورت اور سیاسی گہما گہمی کے بعد 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ اور قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگئی ، جس کے بعد سیاسی میدان میں چھائی ہیجانی کیفیت بھی اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
اس چھبیسویں ترمیم میں بلاول بھٹو نے بہت اہم کردار ادا کیا اس کے باوجود ساری بازی اور معاملہ مولانا فضل الرحمان کے حق میں رہا اور حکومت اُن کے مسودے پر بالاخر راضی ہوئی۔
مولانا فضل الرحمان ایک موقع پر یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ آئینی ترمیم کے معاملے پر تحریک انصاف کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں جس کے باعث حکومت کو دو تہائی اکثریت نہیں مل پاتی اور پھر ترمیم کو منظور کروایا نہیں جاسکتا تھا۔
ایک ماہ قبل جب حکومت نے آئینی ترمیم عجلت میں پیش کرنے کی کوشش کی تو اُس میں ناکامی ہوئی جس کے بعد اس معاملے کی ساری باگ دوڑ بلاول بھٹو نے سنبھالی اور پھر وہ انتہائی متحرک بھی نظر آئے۔
بلاول بھٹو نے آئینی عدالتوں کے حوالے سے ملک بھر کی بار کونسلز میں جاکر خطاب کیا اور اس بات کا تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ قائد اعظم اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شدید خواہش تھی کہ آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے تاہم مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کے بعد پھر آئینی عدالت کے قیام کا فیصلہ تبدیل کر کے اسے آئینی بینچز کردیا گیا۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت نے سینیٹ میں بی این پی مینگل کے دو سینیٹرز جبکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے 6 آزاد امیدواروں کے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ان کے بارے میں دعوے کیے گئے تھے کہ مذکورہ سینیٹرز یا اراکین یا پھر اُن کی فیملیز کو مبینہ طور پر گمشدہ کیا گیا جبکہ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عمر ایوب و شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا کہ ووٹ کے عوض اربوں روپے کی ڈیل ہوئی ہے۔
آئینی ترمیم کے بعد اب بات ہورہی ہے کہ کس جماعت نے کتنا فائدہ اٹھایا، اس معاملے میں اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ فائدہ مولانا فضل الرحمان نے اٹھایا جن کی چار اہم تجاویز کو ترمیم میں شامل کیا گیا جبکہ آئینی عدالت سے معاملہ آئینی بینچ تک پہنچا۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی اپنے طور پر کوئی نہ کوئی فائدہ اس سے حاصل کیا جبکہ ن لیگ کو چارٹر آف ڈیموکریسی کا معاہدہ پورا کرنے اور بالخصوص عدلیہ کو کنٹرول کرنے کا فائدہ حاصل ہوا کیونکہ یہ دو بڑی جماعتیں عدالتی عتاب کا شکار رہی ہیں۔
اسی کے ساتھ ایک تاثر یہ بھی دیا جارہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ جنہیں ممکنہ طورپر قاضی فائز عیسی کے بعد چیف جسٹس بننا تھا وہ تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، آئینی ترمیم اور بالخصوص چیف جسٹس کی تقرری کے سیکشن میں ترمیم کر کے اُن کا راستہ روک دیا گیا ہے۔
ترمیم کے مطابق مستقبل میں چیف جسٹس کی تقرری کیلیے تین نام پارلیمان کی 12 رکنی خصوصی کمیٹی کا جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے جائیں گے جس میں سے ایک پر اتفاق کیا جائے گا۔
تحریک انصاف نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا تاہم اُسے سب سے بڑا فائدہ حاصل ہوا، کیونکہ رواں سال جولائی میں حکومت نے تحریک انصاف پر پابندی اور اس کی سیاسی ایکٹویٹیز کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم کچھ وجوہات کی بنا پر اُس فیصلے پر عمل درآمد تعطل کا شکار رہا۔
اس کے بعد گزشتہ کئی ہفتوں سے بانی پی ٹی آئی سے تحریک انصاف کی قیادت کی ملاقات نہیں ہوپارہی تھی، آئینی ترمیم کے شور کے دوران بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کی مداخلت پر پی ٹی آئی کے پانچ قائدین نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اور اُن کی ہدایت پر آئینی ترمیم کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
اس ساری صورت حال میں دیکھا جائے تو سب سے بڑا فائدہ تحریک انصاف کو حاصل ہوا کیونکہ چند ماہ قبل حکومت اور اتحادی جماعتیں اُس پر پابندی لگانے کی بات کرتی نظر آرہی تھیں اور آئینی ترمیم کے دوران کے پراسس پھر اُس کے بعد اب حکومت اور تمام جماعتوں نے تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت تسلیم کرلیا ہے اور اُن سے مذاکرات بات چیت بھی کی ہے۔
Comments
0 comment