بالی ووڈ میں مسلمان حاوی ہیں مگر میڈیا پر اسلام کے معاملے میں کمزور ہیں، ذاکر نائیک
ویب ڈیسک
|
3 Oct 2024
کراچی:معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹرذاکر نائیک نے کہا ہے کہ اسلام میں دعوت دین کا تصور ہے، اگر غیر مسلم قبول نہیں کرتا تو اس کی مرضی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو گورنر ہاؤس میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں کیا۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے استقبالی کلمات ادا کیے، تقریب میں غیر ملکی سفارت کاروں ،عوامی نمائندوں معززین شہر، اعلیٰ حکام و دیگر نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ اردو زبان میں مہارت نہ ہونے پر خطاب میں غلطی پر معذرت خواہ ہوں گا، 12 برس کے بعد اردو میں عوامی خطاب کر رہا ہوں ۔پاکستان کی سرزمین پر آمد پر بہت خوشی ہے ۔1991 میں پہلی مرتبہ پاکستان آیا تھا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے مدعو کرنے پر شکر گزار ہوں۔
انہوں نے کاہ کہ بھائی چارے اور امن کا پیروکار ہوں، میڈیا کی اہمیت کے موضوع پر اظہار کررہا ہوں، آج کی تاریخ میں میڈیا سب سے اہم ہتھیار ہے، آج میڈیا پر اسلام کے خلاف منفی پروپگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا میں مسلمان بہت آگے ہیں، بالی ووڈ میں مسلمان حاوی ہیں اسلام کے معاملہ میں مسلمان میڈیا پر کمزور ہیں۔ اللہ کا پیغام پھیلانے اور دین کو دینے کے لیے میڈیا ٹیکنالوجی کمزور ہے۔ 2006میں میں اس جانب متوجہ ہوا اور پیس ٹی وی کا قیام اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا کے مساوی ٹیکنالوجی استعمال کی، اسلامک چینل کو چند برسوں میں عروج حاصل ہو گیا، ناظرین کی تعداد 10 ملین تک جا پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے منفی سرگرمیوں میں نہ جائیں تو ان کو بہتر اور جدید سہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔ ہماری ٹیکنالوجی دیکھ کرہالی ووڈ پر اجارہ داری کرنے والے میڈیا گروپ حیران اور پریشان رہ گئے۔کراچی میں پانچ اور چھ اکتوبر کو عوامی اجتماعات میں بھی میڈیا کی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کریں گے۔مذہبی ٹی وی چینل کی مقبولیت اور پھیلاؤ کے بعد رکاوٹوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جبکہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ دوام مل رہا ہے۔
ذاکر نائیک نے کہا کہ دین کی پھیلاؤ کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کا علم جاننا ضروری ہے۔بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر اچھائی کے مقابلے میں برائی زیادہ پھیل رہی ہے، اللہ اور رسول کے پیغام کا پھیلاؤ آخرت میں بھلائی کا سبب بنے گا۔بد قسمتی ہے کہ اکثر مدارس یا اسلامی اداروں میں جدید میڈیا ٹیکنالوجی کے حوالے سے اگاہی فراہم نہیں کی جاتی۔سوشل میڈیا کے مختلف روابط کو اسلامی تدوین اور فروغ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔اسلام کے فروغ کے لیے کام کرنے والے سوشل میڈیا کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ بدقسمتی سے جدید میڈیا ٹیکنالوجی یہودیوں کے ہاتھ میں ہے ۔اللہ پاک نے مسلمانوں کو دنیا میں سب سے زیادہ امیر بنایا ہے،لیکن مسلمان اپنا پیسہ غلط چیزوں میں استعمال کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی یعنی مصنوعی مہارت پر مسلمان بالکل تحقیق نہیں کر رہے۔اے آئی سے بہترین ٹول ہو نہیں سکتا۔پاکستانیوں میں دین کے فروغ کا جذبہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کا واحد مسلمان ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے ۔پاکستان کو اے آئی کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک سے سوالات وجوابات کا سیشن میں ایک اقلیتی شریک نے سوال پوچھا کہ مذہب پر لوگوں کو آپس میں متصادم کیا جاتا ہے؟۔جواب میں انہوں نے کہا کہ مذہب کے نام پر لڑانے سے بچنے کا حل یہ ہے کہ حقوق کی ادائیگی کو مد نظر رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے بہترین عمل اللہ کی عبادت کرنا ہے،اسی طریقے سے اگر اسلام کو سمجھنے کے لیے قران کو پڑھنا ضروری ہے،دوسرے مذاہب کو سمجھنے کے لیے ان کی کتابوں کو پڑھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو مت سے متعلق کتابوں میں بھی واضح طور پہ تحریر ہے کہ بھگوان صرف ایک ہے، یہودوں کی کتابیں بھی واضح ہے کہ خدا ایک ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ سورہ اخلاص اللہ کی وحدانیت بیان کرتی ہے، قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ آو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو، اختلاف کی بنیاد پر جھگڑا نہیں کرنا چاہیے ۔اگر کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں کہ میں مسلم ہوں۔ اختلاف کی بنیاد پر تقسیم یا بٹوارا نہیں ہونا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دین میں 95 فیصد اتفاق اور محض پانچ فیصد اختلاف ہے۔میں بھی انسان ہوں غلطی کر سکتا ہوں۔دین میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ اختلاف کرنے والے سے اختلاف کیا جائے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ اسلام کا اصول ہے کہ اتفاق رکھیں، قران میں اسلام کے کسی فرقے کا ذکر نہیں.جبری طور پر مذہب کی تبدیلی اسلام میں حرام ہےم اسلام میں کوئی بھی جبر نہیں ہےکسی کو دھمکی دے کر اس کا دین تبدیل نہیں کیا جا سکتا، کسی دباؤ یا جبر سے بالاتر ہو کر اسلام قبول کرنا بہترین ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مسلمانوں میں شعوری صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے .مستقبل میں اسلام دنیا کا سب سے بڑا دین ہوگا، ہم سیٹلائٹ کے ذریعے پوری دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر ایک محفوظ ہے.میں بھی انسان ہوں غلطی کر سکتا ہوں.بلاوجہ نفرت کرنا درست نہیں ہے۔
قران کہتا ہے کہ اگر کوئی آپ سے برا کرتا ہے تو اس کا جواب اچھائی سے دو.اسلام میں دعوت دین کا تصور ہے اگر غیر مسلم قبول نہیں کرتا تو اس کی مرضی ہےاسلامی ریاست میں غیر مسلم سب سے زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ ایک انفرادی غلطی سے کسی قوم یا مذہب پر لڑائی کر دینا درست عمل نہیں،بھارت میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے سب کو علم ہے۔
Comments
0 comment