شاعر گمشدگی کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا لاپتا کرنے والوں کیخلاف سزائے موت کا قانون بنانے پر زور

شاعر گمشدگی کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا لاپتا کرنے والوں کیخلاف سزائے موت کا قانون بنانے پر زور

سب کو پتا ہے کہ کون کررہا ہے، وزیراعظم کو بلاکر جواب مانگا جائے گا، جسٹس محسن
شاعر گمشدگی کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا لاپتا کرنے والوں کیخلاف سزائے موت کا قانون بنانے پر زور

ویب ڈیسک

|

16 May 2024

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعر احمد فرہاد کی گمشدگی کے خلاف اسلام آبادہائیکورٹ میں سماعت ہوئی جس میں جج نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے والو ں کے خلاف سزائے موت کی قانون سازی ہونی چاہیے۔

تفصیلات کے مطابق شاعر احمد فرہاد کی گمشدگی کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی اور کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ شاعر کو کس نے اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد پر بات کرنے کیوجہ سے ایک شاعر کو اٹھالیا گیا  اور جو بھی اس پر بات کرتا ہے اُس کے ساتھ یہی کیا جاتا ہے، یہ باعث شرم ہے ہم سب کو پتا ہے کون کیا کر رہا ہے۔

عدالت میں ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر شاعر احمد فرہاد کی اہلیہ اور وکیل ایمان مزاری، ہادی علی چھٹہ پیش ہوئے اور عدالت بتایا کہ دو روز قبل احمد فرہاد اسلام آباد  کے گھر سے لاپتا ہوگئے۔

اس پر  سرکاری وکیل نے کہا کہ شاعر کی بازیابی کے لیے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنائی ہے جو بازیابی کے لیے کوششیں کررہی ہے،  ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے  عدالت کو بتایا کہ میں لاپتا شخص کی اہلیہ سے ملا ہو جہاں تک مجھے پتا چلا ہے گھر کے باہر سے ان کو اٹھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جس گاڑی میں اٹھایا گیا اُس کے نمبر رات کے اندھیرے کی وجہ سے صاف نہیں آئے تاہم گاڑیوں کے نمبر ٹریس کرنے کے لیے ابھی بھی ایف آئی اے میں کام جاری ہے، ملک بھر کے تمام آئی جیز کو ہم نے خط لکھا ہے۔

ایس ایس پی نے بتایا کہ اس حوالے سے تمام خفیہ اداروں کو بھی خطوط لکھے ہیں، جیوفنسنگ ہم نے کرلی ہے کچھ وقت اس میں لگے گا، سی ڈی آر اور جیو فنسنگ پر کام ابھی ہونا ہے۔ وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ خفیہ ادارے کے حوالے سے ہم نے اپنی پٹیشن میں لکھا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ایس ایس پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  کیا آپ جب ان اداروں کو خط لکھتے ہیں تو کیا کوئی جواب کبھی آتا ہے؟ ایس ایس پی نے صاف الفاظ میں کہا کہ کبھی مثبت جواب نہیں آیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ان کا پورا اعتماد پولیس پر ہے پولیس سے گلہ یہ ہے کہ ایک خاص حد کے بعد پولیس کی تحقیقات آگے نہیں بڑھتی۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ جو لوگ اٹھائے جاتے ہیں واپس آتے ہیں کہتے ہیں کاغان گیا ہوا تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نامعلوم افراد کے پاس ایسی صلاحیت تو ہے کہ 24 گھنٹے میں وہ سبق یاد کراسکیں، لاپتا افراد پر بات کرنے کی وجہ سے شاعر کو اٹھا لیا گیا، باعث شرم بات ہے ہم سب کو پتا ہے کون کیا کر رہا ہے، جو غریب اٹھایا جاتا ہے مہینوں سالوں بعد واپس آتا ہے تو اس کی فیملی کہتی ہے کہ اب کچھ نہ بولنا  کیونکہ وہ بہت کرب اور تکلیف سے گزرے ہوتے ہیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ   لاپتا افراد کے معاملے پر ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ اس میں ملوث افراد کو سزائے موت دی جائے، امید تو ہے کہ ہم کہیں کہ ایسا کوئی قانون بنے  اور لاپتا افراد ایکٹ بنایا جائے۔

وہی لوگ مسنگ ہیں جو زیادہ بات کرتے ہیں ان میں صحافی بھی ہیں، سیاسی ایکٹوسٹ کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے کہاں ہے وزارت اطلاعات؟ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع ذمہ دار ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مجھ سمیت ہر آدمی قابل احتساب ہے، اگر ضرورت پڑی تو وزیر اعظم کو بھی بلاؤں گا، اگر یہ اغوا کاروں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے تو گھر جائیں گے، میں نے آئی جی کو بتایا تھا کہ اگر کوئی لاپتا ہوگا تو ذمہ داری ان پر ہوگی اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیا لا اینڈ انفورسمنٹ ایجنسیز کو خط لکھنے سے معاملہ حل ہو جائے گا؟ سارا دن ٹوئٹر اور ٹک ٹاک پر لوگوں کی عزتیں اچھال رہے ہیں، اگر بندہ بازیاب نہ ہوا تو سب کے خلاف کارروائی کے لئے لکھوں گا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکرٹری داخلہ سے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ وزارت دفاع کا آفیسر آئندہ سماعت پر پیش ہو۔ بعدازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

 

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!