خیبرپختونخوا میں پہلا آٹزم تھراپیوٹک کلینکس قائم کرنے کا فیصلہ
آفتاب مہمند
|
22 Aug 2024
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں پاکستان کے پہلے آٹزم تھراپیوٹک کلینکس قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ صوبے کے دس اضلاع میں پاکستان کے پہلے آٹزم تھراپیوٹک کلینکس قائم کئے جائیں گے۔ ان کلینکس میں آٹزم کے شکار بچوں کا علاج نو پروفیٹ نو لاس کی بنیاد پر ہوگا۔
صوبائی وزیر صحت سید قاسم علی شاہ کہتے ہیں کہ یہ کلینکس پشاور، ہری پور، مردان، چارسدہ، مانسہرہ، صوابی، چترال، ڈیرہ اسماعیل خان، سوات اور دیر میں قائم کئے جائینگے۔
ان بچوں کی ذہنی بحالی کیلئے سرکاری سطح پر کوئی کلینک یا علاج کا انتظام میسر نہیں، ان میں سے زیادہ تر بچے دور افتاد علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے علاج معالجے اور ذہنی بحالی کے لئے کوئی مرکز موجود نہیں۔
صوبائی وزیر کہتے ہیں کہ اس بابت محکمہ صحت اور آٹزم اینڈ لرننگ ڈس ایبلیٹیز آرگنائزیشن کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔ مفاہمتی یادداشت کے تحت آٹزم کا شکار بچوں کی ذہنی بحالی کیلئے ضلعی ہسپتالوں میں کلینکس قائم کئے جائینگے۔ آئندہ پانچ سالوں کیلئے صوبے کے دس اضلاع میں آٹزم کلینکس قائم کئے جائینگے۔
صوبائی وزیر کے مطابق محکہ صحت ضلعی ہسپتالوں میں آٹزم کلینکس کیلئے جگہ و وسائل فراہم کرے گا۔ ان کیلینکس میں نفسیاتی ماہرین پر مشتمل عملہ تعینات ہوگا جو کہ آٹزم کے شکار بچوں کی ذہنی بحالی کیلئے خدمات انجام دیگا۔
آٹزم کیا یے؟
نفسیاتی ماہرین کے مطابق آٹزم ایک پیچیدہ بیماری ہے جو عام طور پر بچپن میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک انسان کی معاشرتی زندگی، تعلقات اور اظہار خیال کی اہلیت کو متاثر کرکے اس پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوتی ہے۔
آٹزم سے متاثرہ شخص میں ایسے رویے پائے جاتے ہیں جو معاشرتی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہوتے۔
طبی ماہرین کے مطابق اس بیماری کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے سے پورا جسم متاثر ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کے شکار بچوں کو اضطراب، ڈپریشن اور نیند کی کمی کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔
آٹزم پر بین الاقوامی ریسرچ یہ بھی کہتی ہے کہ اس نفسیاتی بیماری سے متاثرہ ایک تہائی بچوں کو مرگی کے دورے بھی پڑتے ہیں۔
آٹزم کی علامات
نفسیاتی ماہرین کے مطابق آٹزم کی علامات میں سینکڑوں قسم کے رویے شامل ہیں، تاہم یہ رویے مائلڈ اور شدید دو طرح کے ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی ادارے نیشنل آٹزم ایسوسی ایشن کے مطابق آٹزم کے شکار بچے سماجی لحاظ سے نارمل بچوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
اس بیماری میں مبتلا کچھ بچے ایک یا دو سال کی عمر سے پہلے معمول کے مطابق دکھائی دیتے ہیں لیکن بعد کے سالوں میں ان کے رویوں میں اچانک تبدیلی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
نفسیاتی ماہرین کے مطابق آٹزم کی بعض علامات یہ ہیں
سماجی تعلقات سے کترانا،
طبیعت میں جارحانہ پن،
نام سے پکارے جانے پر جواب نہ دینا،
ہر وقت کی بے چینی اور خوف،
بہت ہی ظالم یا بہت ہی نرم دل،
توجہ دینے میں دشواری،
تنہائی پسند اور گوشہ نشین،
بات کرتے وقت آنکھیں چرانا،
الفاظ اور جملوں کو دہرانا،
ذرا سی بات پر پریشان ہو جانا،
اپنا مطلب سمجھانے یا بات کا اظہار کرنے میں دشواری۔
اعداد و شمار
آٹزم سوسائٹی آف پاکستان کے 2023 کے اعداد و شمار مطابق خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ پچاس ہزار تک بچے آٹزم کا شکار ہیں۔ اسی طرح ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یعنی ڈبلیو ایچ او کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق دینا بھر میں 54 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے جبکہ ایک امریکی سروے کے مطابق لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔
آٹزم کی روک تھام پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت
آٹزم اینڈ لرننگ ڈس ایبیلیٹیز آرگنائزیشن کی سی ای او معصومہ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی اس اقدام یعنی آٹزم تھراپیوٹک کلینکس کے قیام سے آٹزم کی روک تھام تو نہیں ہوگی جیساکہ بچے کی پیدائش کیساتھ یہ بیماری ہو جاتی ہے۔ البتہ اس اقدام سے صوبہ بھر میں اس بیماری کے شکار بچوں کو تھیریپیز مل سکے گی۔
آٹزم کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جیساکہ خیبر پختونخوا سمیت دنیا بھر میں آلودگی، نفسیاتی دباؤ جو معاشرے میں کسی نہ کسی صورت میں ضرور رہتا ہے جیسے عوامل بھی آٹزم بیماری کا سبب بنتے ہیں۔
معصومہ کہتی ہے کہ چھوٹی عمر میں موبائل کا استعمال بھی بچوں کیلئے خطرناک ہوتا ہے جیساکہ یہ بچوں کیلئے ورچول آٹزم کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے میں والدین کو چاہییے کہ کم عمر بچوں کو موبائل کے استعمال سے دور رکھیں جیساکہ اسکا بچوں کی ذہنی نشوونما پر بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔ صوبے میں علاج معالجہ تو دور کی بات، اس جیسی بیماری پر تو آج تک کوئی خاص ریسرچ بھی نہیں ہوا۔ آٹزم ختم تو نہیں کیا جا سکتا جیساکہ اس کے شکار بچوں کی ذہنی حالت ایسی ہی ہوتی ہے۔
معصومہ مزید کہتی ہے کہ اس بیماری کا خاتمہ تو ممکن نہیں البتہ روک تھام کیلئے صوبے میں زیادہ سے زیادہ بحالی ذہنی مراکز قائم کرنے ہونگے تاکہ بچوں کو وہاں پر منیج کیا جائے۔ گوکہ حکومت نے 10 اضلاع میں تھراپیوٹک کلینکس کے قیام کا فیصلہ کیا ہے لیکن صوبے کے تمام اضلاع کے ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں فوری طور ایسے مراکز کا قیام اس وقت ناگزیر ہے۔
انکا مزید بتانا ہے کہ صوبے کے ہر ضلع میں ایسے بیمار بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لہذا کلینیکل پریکٹیسز کے علاوہ میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانے کی بھی ضرورت ہے۔ خاص کر والدین جب اپنے بچوں کو ان مراکز کی قیام کے بعد یہاں پر لے آئیں گے تو انکو بتایا جائے کہ اپنے بچوں کو موبائل کے استعمال سے مکمل طور پر دور رکھیں اور یہاں ذہنی بحالی کے بعد آپکے بچے ایک خوبصورت زندگی گزار سکیں گے جسکا معاشرے پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
Comments
0 comment