فیض حمید سے قبل کتنے فوجی افسران کو سزائیں ہوئیں؟ تاریخ پر ایک نظر

فیض حمید سے قبل کتنے فوجی افسران کو سزائیں ہوئیں؟ تاریخ پر ایک نظر

فیض حمید کے حالیہ فیصلے کے بعد ایک بار پھر یہ موضوع توجہ کا مرکز بنا گیا ہے
فیض حمید سے قبل کتنے فوجی افسران کو سزائیں ہوئیں؟ تاریخ پر ایک نظر

عمیر دبیر

|

11 Dec 2025

پاکستان کی عسکری تاریخ میں کئی ایسے ہائی پروفائل کورٹ مارشل ہوئے  جنہوں نے نہ صرف ملکی سیاست بلکہ سیکورٹی اداروں پر بھی گہرا اثر ڈالا۔

فیض حمید کے حالیہ فیصلے کے بعد ایک بار پھر یہ موضوع توجہ کا مرکز بنا گیا ہے۔

آئیے کورٹ مارشل اور اعلیٰ افسران کو دی جانے والی سزاؤں پر ایک نظر ڈالتے ہیں

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید، 14 سال قید با مشقت

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو سیاسی مداخلت، اختیارات کے غلط استعمال اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 14 سال قید با مشقت کی سزا سنائی۔

یہ فیصلہ 2025 میں سنایا گیا جبکہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کیخلاف 15 ماہ تک ٹرائل جاری رہا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد منیر خان اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر

سنہ 2004 سے 2008 کے دوران مشکوک سرمایہ کاری اور خطرناک قرضوں کی وجہ سے 1.8 ارب روپے کے نقصان کا انکشاف ہوا۔ یہ معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اٹھایا جس پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے انکوائری کا حکم دیا۔

انکوائری مکمل ہونے پر میجر جنرل خالد ظہیر کو برطرف کیا گیا جبکہ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کے خلاف “شدید ناپسندیدگی” کا حکم نامہ جاری ہوا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال

لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال پر 2019 میں حساس معلومات غیر ملکی ایجنسیوں کو فراہم کرنے کے الزام ثابت ہوا جس کے بعد انہیں 14 سال قید سنائی گئی تھی تاہم اپیل پر سزا کم ہوئی اور پھر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے باقی ماندہ سزا ختم کر کے ان کی جلد رہائی ممکن بنائی۔

میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی

1995 میں میجر جنرل عباسی، بریگیڈیئر مستنصر بلّہ اور دیگر افسران پر جی ایچ کیو پر حملے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا الزام ثابت ہوا۔ منصوبہ ’نظامِ خلافت‘ نافذ کرنے سے متعلق تھا۔

الزام ثابت ہونے پر سابق میجر جنرل عباسی کو 7 سال، بریگیڈیئر مستنصر بلّہ کو 14 سال جبکہ دیگر افسران کو 4 سال تک قید کی سزائیں سنائی گئیں۔

بریگیڈیئر (ر) علی خان

سنہ 2011 میں بریگیڈیئر (ر) علی خان کو کالعدم تنظیم حزب التحریر سے روابط اور جی ایچ کیو پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے انہیں 5 سال قید با مشقت کی سزا سنائی جبکہ چار میجرز بھی سزا یافتہ قرار پائے۔

کورٹ مارشل کے بغیر برطرفی

اس کے علاوہ پاک فوج نے سخت ادارتی احتساب کے تھت کچھ اعلیٰ افسران کو باضابطہ ٹرائل کے بجائے قانون کے دیگر اختیارات کے تحت سزائیں سنائی۔ 

جنرل (ر) ضیاءالدین بٹ کو 1999 کے بعد آرمی ایکٹ کی دفعہ 16 کے تحت برطرف کیا گیا۔ 2016 میں کرپشن کے الزامات پر دو حاضر سروس جنرلز سمیت چھ افسران کو برطرف کیا گیا۔

بغیر کورٹ مارشل والے کیسز

سنہ 2012 کے اصغر خان کیس میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی پر الزامات ثابت ہونے کے باوجود کوئی کورٹ مارشل نہ ہو سکا۔

بعد ازاں اسد درانی کے خلاف تحقیقات بھی روک دی گئیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا۔

یہ واقعات اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج میں احتساب کا نظام مختلف ادوار میں مختلف شدت کے ساتھ موجود رہا ہے۔ 

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!