بالی ووڈ اداکارہ کا کراچی پہنچنے پر احسن خان نے استقبال کیا
ابھیشیک اور ایشوریہ کے درمیان معاملات خراب ہونے کی خبریں زیر گردش ہیں
کراچی میں دو بار میرا موبائل چھن چکا ہے،
اداکارہ عائشہ عمر نے اپنے ساتھ پیش آئے ہراسانی کے واقعات پر خاموشی توڑ کر اہم مطالبہ کردیا
اداکارہ میرا کی نجی پروگرام میں گفتگو
عوام بغیر ٹوکن اور نمبر پلیٹ والی گاڑیاں چلانے سے گریز کریں، اداکار کی اپیل
کرن اشفاق نے دو روز قبل دوسری شادی کی ہے
گلوکار حسین بخش گلو کا انتقال بڑا نقصان اور سانحہ ہے، آرٹس
آئٹم سانگ دراصل ہندی فلم انڈسٹری سے آیا ہے، اداکار کی پوڈ کاسٹ میں گفتگو
والدین کو صرف لڑکی کی نہیں بلکہ لڑکے کی بھی فکر کرنی چاہیے، اداکارہ کی مارننگ شو میں گفتگو
اداکارہ نے تصاویر سماجی رابطے کی سائٹ پر شیئر کیں
اداکارہ کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی
اداکارہ نے خوش خبری اپنے انسٹاگرام پر سنائی
ازل سے فطرتِ آزاد ہی تھی آوارہ یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
آبادی کے لحاظ سے میلان اٹلی کا دوسرا بڑا شہر اور اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ آج یہ شہر فن و ثقافت کا مرکز اور سیر و سیاحت کے لیے مشہور ہے۔
دراز قد اور خوب رُو حمید اختر کی آواز بھی جان دار تھی۔ انھیں اپنی شخصیت کے اس پہلو کا خوب احساس تھا یا پھر وہ اپنے اداکاری کے شوق اور صلاحیتوں کا ادراک کرچکے تھے کہ قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے۔ حمید اختر کی یہ کوشش رائیگاں نہ گئی اور ’آزادی کی راہ پر‘ کے نام سے ایک فلم میں انھیں کسی طرح سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن یہ سفر یہیں تمام بھی ہو گیا۔
میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر 1921ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لا تعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِ اقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔
فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار گرو دَت کو ہندوستانی سنیما میں شہرت تو خوب ملی، لیکن اس وقت جب گرو دَت اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ وہ اپنے پیچھے کئی کہانیاں چھوڑ گئے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر اجمل پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور بعد میں صدرِ شعبہ رہے۔ ڈاکٹر صاحب وسیعُ المطالعہ، نہایت قابل اور بڑے نکتہ سنج تھے جن کی گفتگو بھی سحر انگیز ہوتی تھی۔ ڈاکٹر اجمل کے لیکچرز اور ان کے علمی مضامین شاگردوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے تھے۔ ہر کوئی ان سے مرعوب نظر آتا۔ ڈاکٹر صاحب ایسی سحر انگیز اور عالمانہ انداز میں گفتگو کرتے تھے کہ سننے والے کا جی نہیں بھرتا تھا۔