قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا مکمل احوال، کس نے کیا کہا؟ وزیراعلیٰ کے پی کس بات پر ڈٹے؟

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا مکمل احوال، کس نے کیا کہا؟ وزیراعلیٰ کے پی کس بات پر ڈٹے؟

پی ٹی آئی نے اجلاس میں شرکت نہیں کی اور بائیکاٹ کیا
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا مکمل احوال، کس نے کیا کہا؟ وزیراعلیٰ کے پی کس بات پر ڈٹے؟

ویب ڈیسک

|

18 Mar 2025

قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی جماعتوں نے دہشتگردی کو پاکستان سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں  پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کو قومی سلامتی کمیٹی کا بائیکاٹ ، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی کمیٹی کا 50منٹ کی بریفنگ،  دی۔ 

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان آج فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سب کو آہنی عزم کا کا اعادہ کرنا ہوگا۔ 

وزیر اعلی علی امین گنڈا پور نے کہا میرے لوگ دہشتگرد نہیں مجھے کرسی کی پروا نہیں سچی کھری بات کرونگا۔

بلاول بھٹو کا دہشت گردی اہم قومی مسئلہ ہے اگرمگر کی گنجائش نہیں، مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا دہشتگردی اور گڑ بڑ صرف پاکسان میں ہی کیوں ہوتی ہے ریاست کی اپنی پالیسی میں تسلسل کیوں نہیں ۔تفصیلات بتا رہے ہیں وقاص 

 قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا ۔جو پونے 6گھنٹے تک جا ری رہا ۔اجلاس میں وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم او، ڈی جی ایم آئی ڈی جی آئی بی ، سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، وزیراعظم وصدر آزاد کشمیر، چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزرائے اعلی ، گورنرز، چیف سیکرٹریز اور آئی جیز نے شرکت کی۔

 وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی بیرون ملک ہونے کے باعث قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے، اجلاس میں پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈران اور ان کے نامزد کردہ نمائندگان شریک تھے، متعلقہ اراکین کابینہ بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے دوران آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے کمیٹی شرکاء کو بریفنگ دی۔آرمی چیف نے 50 منٹ تک گفتگو کی اور ملک کی سیکیورٹی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فورسز کی کارروائیوں، کامیابیوں اور حکمت عملی کے حوالے سے اجلاس کو آگاہ کیا۔ ڈی جی ملٹری آپریشنز نے 30 منٹ تک بریفنگ دی،

قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے قومی نوعیت کے اہم اجلاس میں حزب اختلاف کی عدم شرکت کو افسوسناک اور غیر سنجیدہ طرز عمل قرار دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کی اجلاس میں عدم شرکت قومی ذمے داریوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہے جو قوم کی مقدس امانت ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف سب کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجی جوان اور ان کے اہل خانہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔

وزیراعظم نے بے نظیر بھٹو، بلور خاندان اور مفتی نعیمی سمیت سیکڑوں اہم شخصیات کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد میرے قائد نواز شریف نے پوری قوم کو متحد کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ پوری قوم نے مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ افواجِ پاکستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سکیورٹی ایجنسیز، سیاستدانوں اور پاکستانی شہریوں نے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی۔

 وزیر اعظم نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ قربانیوں کی بدولت پاکستان کا امن بحال ہوا، معیشت سنبھلی اور ملک کی رونقیں بحال ہوئیں۔ 2018 میں قائم ہونے والی نا اہل حکومت نے دہشتگردی کے خلاف جنگ سے حاصل ہونے والے ثمرات کو ضائع کر دیا اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد روک دیا۔ 

اُن کا کہنا تھا کہ پوری قوم جو آج خمیازہ بھگت رہی ہے وہ اس پالیسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان آج فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔دہشت گردی کو ایک مرتبہ پھر سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہم سب کو آہنی عزم کا کا اعادہ کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کا اصل نشانہ عوام کا اتحاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا، فوجی جوانوں و افسران نے پیشہ ورانہ مہارت سے سیکڑوں جانیں بچائیں۔ 

وزیراعظم نے افواج پاکستان کی قیادت بالخصوص آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراج تحسین کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ آج کی فیصلہ کن گھڑی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم سوال کریں، کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ آج اس ملک کے 25 کروڑ عوام پاکستان اور اس کی سلامتی کے محافظوں، افواج پاکستان و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ جو ملک، قوم، افواج پاکستان، شہیدوں و غازیوں کے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کا ساتھی اور ان کا اتحادی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پراپیگنڈے کے ذریعے فوج اور عوام کے مابین دراڑ ڈالنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ فوج اور عوام ایک ہیں، نہ ان کے مابین دراڑ ڈالنے کی سازش پہلے کامیاب ہوئی نہ آئندہ ہوگی۔ ایسے شر پسند عناصر کی مذموم کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ 

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا حصول ہمارے اسلاف کی لاکھوں قربانیوں کے بعد ممکن ہوا۔ ہم ان کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ پاکستان ہے، تو ہم سب ہیں، ہماری سیاست ہے۔

 ذرائع کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانافضل الرحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اجلاس میں نہ دیکھ مایوسی ہوئی، پی ٹی آئی مجھ سے مشورہ کرتی تو انہیں شرکت کا مشورہ دیتا، 1988ء سے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھا رہا ہوں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک ہے تو سب کچھ ہے، متعدد بار اپنی تقاریر میں کہہ چکا ہوں کہ یا تو میرا استاد شہید ہے یا اس کو مارنے والا مجاہد، دونوں باتیں ایک ساتھ درست نہیں ہوسکتیں مگر میں اپنے استاد کو شہید کہوں گا۔

ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا دہشتگردی اور گڑ بڑ صرف پاکستان میں ہی کیوں ہوتی ہے ریاست کی اپنی پالیسی میں تسلسل کیوں نہیں ؟میں افغانستان گیا تھا، ہوم ورک ہوا،بہت اچھی گفتگو ہوئی، نہ جانے کس نے اور کیوں پیش رفت کو روکا، افغانستان کے ساتھ اور ممالک کے بھی بارڈر لگتے ہیں۔

 قومی سلامتی کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ دہشت گردی اہم قومی مسئلہ ہے جس میں اگرمگر کی گنجائش نہیں، دنیا کو بھی افغان حکومت کے کردار سے آگاہ کرنا ہو گا، اپنی خارجہ پالیسی کو مزید موٴثر بنانا ہو گا۔

 ذرائع کے مطابق بلاول بھٹوزرداری کا کہنا تھا کہ افغانستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، جو آگ پاکستان میں لگی ہے، ہمارے اردگرد رہنے والے مت سمجھیں کہ ان تک نہیں پہنچے گی، دہشتگردوں کی مالی مدد کرنے والوں کا بھی پتہ لگانا ہو گا، افغانستان میں دہشتگردی کا معاملہ بھرپور انداز میں سفارتی سطح پر اٹھانا ہو گا۔ بیرونی دنیا بھی یہ سب معاملات دیکھے، دنیا خود کو اس خطے سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتی۔

ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ہر طرح کی مدد کیلئے تیار ہے، یہ اہم قومی مسئلہ ہے جس میں اگر-مگر کی گنجائش نہیں، بلاول بھٹو زرداری نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے غیر مشروط تعاون اور غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا۔

 اجلاس میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں خطاب کرتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا کی داخلی و خارجی صورتحال سے متعلق آگاہ کیا۔ ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ دہشتگرد افغانستان سے آرہے ہیں میرے لوگ دہشتگرد نہیں مجھے کرسی کی پروا نہیں سچی کھری بات کرونگا۔

وزیر اعلی کے پی کے نے تمام ایشوز اٹھائے مگر پی ٹی آئی بائیکاٹ پر کوئی بات نہیں کی جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف ، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی ،اے این پی کے ایمل ولی خان،انوار الحق کاکڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے تجاویز کمیٹی کی سامنے رکھی۔ 

بعد ازاں اجلاس ک اختتام پر اسپیکر قومی اسمبلی کی درخواست پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اختتامی دعا کرائی۔

Comments

https://dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!