ثانیہ زہرہ کو قتل کیا گیا، ساس اور شوہر کے ڈی این اے میچ کرگئے
ویب ڈیسک
|
12 Aug 2024
پنجاب حکومت نے پیر کے روز تصدیق کی کہ ملتان میں مردہ حالت میں پائی جانے والی 20 سالہ حاملہ خاتون ثانیہ زہرہ کو اس کے شوہر سید علی رضا بخاری اور ساس عذرا جیون شاہ نے قتل کیا، جس کے ڈی این اے میچ کر گئے ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے لاہور میں ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کی چیئرپرسن حنا پرویز بٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس کے دوران بخاری نے کہا کہ شواہد بتاتے ہیں کہ زہرہ کی موت خودکشی سے نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ثانیہ زہرا کیس میں خودکشی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ساس اور شوہر نے مل کر لڑکی کے گلے میں پھندا ڈال دیا تھا۔ بخاری نے وضاحت کی کہ فرانزک لیب کی رپورٹ اور ثانیہ زہرہ کی گردن اور کندھے پر زخم کے نشانات ثابت کرتے ہیں کہ یہ قتل کا مقدمہ تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے گلے میں بندھا ہوا ڈوپٹہ موت کی وجہ نہیں تھا بلکہ اسے خودکشی جیسا بنانے کی کوشش تھی، ثانیہ زہرہ کے ناخنوں کے ڈی این اے کے نمونے سمیت شواہد ان کے شوہر اور ان کی ساس سے میچ کر گئے ہیں۔
صوبائی وزیر کے مطابق ’’فرانزک لیب ایسے کیسز کا سراغ لگاتی ہے، فارنزک کو ثانیہ کی ساس اور شوہر کے خلاف ثبوت ملے ہیں۔"
انہوں نے خواتین کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے اور ورچوئل پولیس اسٹیشنز پر کام کرنے پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تعریف کی۔
کیس کا پس منظر:
یہ دلخراش واقعہ 9 جولائی کو انسٹاگرام پیج جسٹس فار ثانیہ پر پہلی بار اٹھایا گیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ بیس سالہ ثانیہ زہرہ کو اُس کے شوہر اور سسرالیوں نے حاملہ ہونے کے باوجود بربریت سے قتل کیا۔
پیج نے فرانزک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قتل کا واقعہ 8 جولائی کو پیش آیا اور ثانیہ کے والدین کو پولیس نے 9 جولائی کو اطلاع دی تھی۔ ہینڈل کے مطابق مقتولہ کے شوہر نے اس پر وحشیانہ تشدد کیا، اس کی زبان کاٹ دی، اس کے دانت توڑ دیے اور پاؤں کچل ڈالے۔
ثانیہ، جس کے دو لڑکے تھے، جن کی عمر 3 سال اور 1.5 سال تھی، کو بھی اس کے شوہر نے قتل کرنے سے پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ 5 ماہ کی حاملہ بچی کی جان لینے کے بعد ملزم نے مبینہ طور پر اس کی لاش کو چھت کے پنکھے سے لٹکا کر قتل کو خودکشی کے طور پر پیش کیا۔
بعد ازاں متاثرہ لڑکی کے والد سید اسد عباس شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے سسرال والے قتل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کے داماد نے پیسے اور جائیداد کے لیے ان کی بیٹی کو قتل کیا ہے۔
دوسری جانب، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 20 سالہ مقتولہ کی گردن پر نشان پھانسی کے نشان سے مطابقت رکھتا تھا، اور اس کی موت "پھانسی لگنے سے دم گھٹنے سے ہوئی"۔
پوسٹ مارٹم کے مطابق اس کی گردن میں کوئی فریکچر نہیں تھا اور نہ ہی اس کے جسم پر کوئی زخم یا تشدد کے نشانات پائے گئے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ موت کے وقت وہ حاملہ نہیں تھیں۔
دو روز قبل پنجاب حکومت نے قتل کیس کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ایف آئی آر کے مندرجات اور متاثرہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تضادات پائے جانے کے بعد کمیٹی تشکیل دی گئی۔ تاہم صوبائی وزراء نے آج تصدیق کی کہ ثانیہ کو ان کے شوہر اور ان کی ساس نے قتل کیا تھا۔
Comments
0 comment