اسرائیل حسن نصراللہ کو کب قتل کرنا چاہتا تھا؟
Webdesk
|
6 Jan 2025
تل ابیب: اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ کے حوالے سے نئی رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکرٹری جنرل حزب اللہ کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کو کئی روز پہلے سے درست اطلاعات مل چکی تھیں کہ حسن نصراللہ کہاں اور کب ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ کو قتل کرنے کے لیے 14 مقامات پر بمباری کی گئی اس بمباری میں ان سب عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں حسن نصراللہ کے داخل ہونے کی اطلاع تھی۔
بمباری کرتے ہوئے وہ تمام ممکنہ راستے بھی ہدف بنائے گئے جو ان عمارات سے بچ نکلنے کی صورت کام آ سکتے تھے۔ گویا بمباری کے ذریعے مکمل ناکہ بندی بھی کر دی گئی تھی۔
اسی طرح بمباری کے بعد ریسکیو آپریشن کا امکان ختم کرنے کیلیے اس بمباری کو مسلسل جاری رکھا گیا اور کئی دن تک کی گئی۔ اسرائیلی سیکیورٹی ادارے یہ تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیل نے 2006 میں ہی حسن نصراللہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اس مقصد کے لیے اسرائیل کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارے مسلسل کوشاں رہے، تاہم یہ فیصلہ اسرائیل کی سیاسی قیادت نے کرنا تھا کہ حسن نصراللہ کو نشانہ بنانے کا بہترین اور مناسب ترین وقت کون سا ہوگا۔
سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی قیادت نے حتمی طور پر فیصلہ کر لیا کہ اب حزب اللہ کے سربراہ کا قتل بھی ممکن بنا لینا ہے۔اس مقصد کے لیے اسرائیلی سیکیورٹی اداروں نے حسن نصراللہ اور حزب اللہ کو یہ دھوکہ دینے کی سٹریٹجی اپنائی کہ اسرائیل کسی صورت سرحدی کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہے گا۔
حسن نصراللہ اسرائیل کے اس دھوکے میں آگئے اور انہوں نے اپنی سیکیورٹی کو زیادہ سخت نہیں کیا۔پچھلے سال 16 ستمبر کو اسرائیل نے اپنی حکمت عملی اس وقت تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا کہ اب حسن نصراللہ کو قتل کر دیا جائے گا۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب امریکی نمائندہ خصوصی مایوس ہو گئے اور حزب اللہ نے نیتن یاہو کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ حماس کی حمایت سے باز آجائے۔
اسرائیل کی جنگی کابینہ نے 17 ستمبر کو لبنان پر بڑے حملے کی منظوری دی۔ یہ بڑا حملہ پیجروں کو دھماکوں سے اڑانے کا فیصلہ تھا۔ حسن نصراللہ نے 19 ستمبر کو ایک تقریر میں اعلان کیا کہ جب تک غزہ میں اسرائیل جنگ نہیں روکتا اسے سرحد پر نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔
Comments
0 comment